اردو ادب میں تانیثیت ایک فکری اور نظریاتی تحریک کے طور پر نہ صرف خواتین کے مسائل کو اجاگر کرتی ہے بلکہ سماجی، ثقافتی اور نفسیاتی پہلوؤں کو بھی زیرِ بحث لاتی ہے، اور حمیرا اشفاق کی نثر اس تناظر میں ایک منفرد حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی تحریریں محض خواتین کے حقوق کا بیانیہ پیش نہیں کرتیں بلکہ پدرشاہی نظام، جبر، نفسیاتی گھٹن اور عورت کی داخلی دنیا کو بھی بڑی باریکی سے اجاگر کرتی ہیں۔ ان کے افسانے اور مضامین عورت کے وجودی مسائل، شناخت کی کشمکش اور روایتی سماجی ڈھانچوں میں اس کے کردار پر گہرے سوالات اٹھاتے ہیں، جہاں عورت محض ایک مظلوم ہستی کے طور پر نہیں بلکہ ایک مزاحمتی کردار کے طور پر بھی سامنے آتی ہے۔ ان کے اسلوب میں نفسیاتی گہرائی، داخلی خودکلامی اور علامتی اظہار نمایاں نظر آتا ہے، جو قاری کو عورت کے محسوسات اور جدوجہد کی پیچیدگیوں میں لے جاتا ہے۔ اردو ادب میں تانیثی بیانیے کے تناظر میں حمیرا اشفاق کی نثر ایک ایسے بیانیے کی تشکیل کرتی ہے جو نہ صرف جذباتی و فکری سطح پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اس میں زبان، اسلوب اور کرداروں کے ذریعے سماجی حقیقتوں کو بھی مؤثر انداز میں پیش کیا جاتا ہے، یوں ان کی نثر اردو تانیثیت کے ادبی سرمائے میں ایک مضبوط حوالہ سمجھی جا سکتی ہے۔