سنہ 2000 سے 2017 تک اردو نظم پر دہشت گردی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے، جنہوں نے اس کے موضوعات، اسلوب اور اظہار کے انداز کو متاثر کیا۔ اس عرصے میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات، خودکش حملے، جنگی صورتحال، معصوم جانوں کا ضیاع اور خوف و ہراس کے ماحول نے شاعروں کو شدید جذباتی اور فکری سطح پر متاثر کیا۔ اردو نظم نے اس دور میں اجتماعی تکالیف، ریاستی عدم استحکام، انسانی المیے اور جنگ زدہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہوئے ایک مزاحمتی بیانیہ اختیار کیا۔ امجد اسلام امجد، ظفر اقبال، افتخار عارف، حارث خلیق اور کئی دیگر شعرا نے اپنی نظموں میں دہشت گردی کے خلاف احتجاج، انسانی حقوق کی پامالی، بے گناہ انسانوں کی شہادت اور خوف کی فضا کے موضوعات پر شاعری کی۔ بعض نظموں میں دہشت گردی کے اسباب، اس کے خلاف عوامی جذبات اور امن کی خواہش جیسے پہلو بھی اجاگر کیے گئے۔ جدید اردو نظم نے اس دور میں نہ صرف ایک مزاحمتی اور احتجاجی رنگ اختیار کیا بلکہ انسانی نفسیات، بے بسی اور درد کے جذبات کو بھی گہرائی سے بیان کیا، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اردو ادب نے اس تاریک دور کو نہ صرف جذب کیا بلکہ اسے اپنی تخلیقی روایت کا حصہ بھی بنایا۔