بانو قدسیہ کے افسانوں کی کردار نگاری میں ایک گہری نفسیاتی اور سماجی تفصیل پائی جاتی ہے، جو ان کے کلام کو منفرد اور اثرانگیز بناتی ہے۔ ان کے افسانوں میں کردار نہ صرف اپنے داخلی جذبات اور فکری کشمکش کا سامنا کرتے ہیں بلکہ وہ اپنے سماجی اور ثقافتی ماحول کے اثرات کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ بانو قدسیہ کی کردار نگاری میں نسوانی شخصیت کی عکاسی خاص طور پر اہمیت رکھتی ہے، جہاں خواتین کے جذبات، خواہشات، اور ان کے سماجی مسائل کو بڑے تنقیدی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی افسانوں میں اکثر خواتین کردار ایک داخلی بحران کا شکار ہوتے ہیں، جہاں وہ خود کو سماجی دباؤ، خاندانی رشتہ داریوں اور فردی خواہشات کے درمیان پھنسے ہوئے پاتی ہیں۔ ان کرداروں کے ذریعے بانو قدسیہ سماجی حقیقتوں اور ان کے اثرات پر گہری نظر ڈالتی ہیں، جو کہ ان کے افسانوں کو حقیقت پسندانہ اور سماجی طور پر آگاہ بناتی ہے۔ اس کے علاوہ، بانو قدسیہ کے افسانوں میں مردوں کے کردار بھی اہمیت رکھتے ہیں، جہاں ان کی نفسیاتی پیچیدگیاں اور سماجی جبر کے حوالے سے تجزیہ کیا جاتا ہے۔ بانو قدسیہ کی کردار نگاری میں انسان کی پیچیدہ نفسیات، اس کی خواہشات، اور اس کے درمیان پیدا ہونے والی تضادات کو بہت خوبی سے پیش کیا جاتا ہے، جس سے افسانوں کی حقیقت پسندی اور گہرائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی کردار نگاری میں ہر کردار کی اپنی شناخت اور گہرائی ہوتی ہے، جو انہیں صرف کہانیوں کا حصہ نہیں بلکہ ایک بھرپور انسانی تجربے کی نمائندگی کرتی ہے۔