ترقی پسند اردو ناول میں انسان کا تصور بنیادی طور پر انسانیت، آزادی، اور سماجی انصاف کے نظریات پر مرکوز ہوتا ہے۔ ترقی پسند ادبی تحریک کا آغاز بیسویں صدی کے وسط میں ہوا، اور اس نے اردو ناول میں سماجی، سیاسی، اور اقتصادی مسائل کو مرکزی موضوع بنایا۔ ترقی پسند ناول نگاروں نے انسان کو محض فرد یا شخص نہیں بلکہ ایک سماجی اور سیاسی موجودگی کے طور پر پیش کیا، جس کے حقوق، جذبات اور عزت نفس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان ناولوں میں انسان کا تصور ایک جبر کے خلاف مزاحمت، طبقاتی تفریق، اور سماجی تبدیلی کے لیے جدوجہد کے طور پر سامنے آتا ہے۔ ترقی پسند ناولوں میں انسانی تجربات کو ایک وسیع تناظر میں دیکھا جاتا ہے جہاں فرد کے مسائل اور اس کی خواہشات کے ساتھ ساتھ پورے معاشرتی ڈھانچے کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے۔ ترقی پسند ناول نگاروں نے انسان کو ایک فرد کے طور پر پیش کرنے کی بجائے اس کے اجتماعی پہلو کو اجاگر کیا، اور اس کے کردار کو سماجی، اقتصادی، اور سیاسی حقیقتوں کے تناظر میں دکھایا۔ ان ناولوں میں انسان کو ظلم و جبر، استحصال، اور طبقاتی فرق کے خلاف آواز اٹھانے والے ایک سرگرم کردار کے طور پر دکھایا گیا۔ انسان کا تصور ترقی پسند اردو ناول میں ایک طاقتور اور متحرک موجودگی کے طور پر ابھرتا ہے، جو نہ صرف اپنی ذاتی مشکلات سے لڑ رہا ہوتا ہے بلکہ پورے معاشرے کی اصلاح کے لیے بھی کوشاں ہوتا ہے۔ اس صنف نے اردو ادب میں انسان کے حقوق اور اس کی فلاح کے موضوعات کو نئی اہمیت دی اور اسے سماجی، اخلاقی اور سیاسی سطح پر بہتر سمجھنے کی کوشش کی۔