Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

عصرِ حاضر کی اردو شاعری میں کلاسیکی عناصر(سرمایہ الفاظ کے خصوصی حوالے سے)

عصرِ حاضر کی اردو شاعری میں کلاسیکی عناصر کا استعمال، خاص طور پر الفاظ کے سرمایہ کے حوالے سے، ایک اہم پہلو ہے جس میں شاعر اپنے ماضی کے ورثے کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالتا ہے۔ کلاسیکی اردو شاعری میں الفاظ کی خوبصورتی، ان کے معانی کی گہرائی، اور شعری آلات جیسے قافیہ، ردیف، اور بحر کا بے حد خیال رکھا جاتا تھا۔ شعراء نے اپنے کلام میں الفاظ کی ترتیب اور انتخاب کو اس طرح سے کیا کہ وہ نہ صرف موسیقیت میں خوشبو پیدا کرتے بلکہ ان کے ذریعے مختلف جذبات و خیالات کی عکاسی بھی کرتے تھے۔ مثلاً، غالب، اقبال اور میر کے اشعار میں لفظوں کا استعمال نہایت خوبصورت، پُر اثر اور معنی خیز ہوتا تھا، جس سے نہ صرف اشعار کی تاثیر بڑھتی تھی بلکہ ایک گہری ادبی روایت بھی قائم ہوتی تھی۔ آج کے اردو شعراء نے ان کلاسیکی اصولوں کو اپنانے کے ساتھ ساتھ ان میں نئے تجربات بھی کیے ہیں۔ جدید شاعری میں احمد فراز، بشیر بدر اور سلیم احمد جیسے شاعروں نے کلاسیکی الفاظ اور محاوروں کو نئی شکل دی ہے، اور انہیں نئے موضوعات، جذبات اور تصورات کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے۔ یہ جدید شعراء کلاسیکی الفاظ کی لطافت کو برقرار رکھتے ہوئے انہیں موجودہ دور کے سماجی اور نفسیاتی تجربات کے تناظر میں پیش کرتے ہیں، جس سے ان کی شاعری میں نہ صرف کلاسیکی حسن بلکہ ایک نیا فنی اور فلسفیانہ رنگ بھی پیدا ہوتا ہے۔ اس طرح، عصرِ حاضر کی اردو شاعری میں کلاسیکی عناصر کا یہ امتزاج ایک خوبصورت توازن پیدا کرتا ہے، جو قدیم ادب کی عظمت کو برقرار رکھتے ہوئے جدیدیت کی طرف بھی ایک اہم قدم بڑھاتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں