مشرق اور مغرب کی تہذیبی کشمکش اردو افسانے کا ایک اہم موضوع رہا ہے، جو بیسویں صدی کی سیاسی، سماجی، اور ثقافتی تبدیلیوں کے پس منظر میں تشکیل پایا۔ اردو افسانے میں اس کشمکش کو ایک فکری اور جذباتی مسئلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جہاں مشرقی تہذیب اپنی روایات، اقدار، اور روحانی بنیادوں پر کھڑی ہے، جبکہ مغربی تہذیب جدیدیت، سائنسی ترقی، اور مادیت پسندی کی نمائندگی کرتی ہے۔ مختلف افسانہ نگاروں نے اس موضوع کو اپنی تخلیقات میں مختلف زاویوں سے بیان کیا ہے۔ مثلاً، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی، اور کرشن چندر جیسے ادیبوں نے مغربی تہذیب کے اثرات کو گہرائی سے محسوس کیا اور ان کے اثرات پر تنقیدی نگاہ ڈالی۔ ان کے افسانوں میں مغرب کی چمک دمک کے پیچھے چھپے اخلاقی زوال اور انسانی رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ کو اجاگر کیا گیا ہے، جبکہ مشرقی روایات کی کمزوریوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسری طرف، قرۃ العین حیدر اور انتظار حسین جیسے ادیبوں نے مشرقی تہذیب کی روحانیت اور مغرب کی مادی ترقی کے درمیان ایک ہم آہنگی تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔اردو افسانے میں اس تہذیبی کشمکش کو اکثر کرداروں کے باہمی تنازعات، سماجی تبدیلیوں، اور زندگی کے پیچیدہ مسائل کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔ یہ افسانے نہ صرف ایک مخصوص دور کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ تہذیبی شناخت، روایت اور جدیدیت کے مابین تعلق کو سمجھنے کا ایک منفرد موقع بھی فراہم کرتے ہیں۔ اردو افسانے میں اس کشمکش کا تجزیہ ان ادبی تخلیقات کے سماجی، فلسفیانہ، اور تہذیبی پہلوؤں کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔