کلام اقبال میں اقوام و ملل کا موضوع ایک اہم جزو ہے، جو ان کی فکری اور فلسفیانہ تخلیقات میں ایک گہری حقیقت کا عکس پیش کرتا ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری میں اقوام کی حالت، ان کے عروج و زوال، اور اجتماعی زندگی کے اصولوں پر بھرپور غور کیا۔ ان کا تصور اقوام و ملل نہ صرف جغرافیائی اور سیاسی حیثیت تک محدود ہے بلکہ وہ اسے روحانی، اخلاقی اور فکری سطحوں پر بھی پرکھتے ہیں۔ اقبال نے مسلمانوں کے عالمی اتحاد، خودی، اور خودمختاری کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ان کی شاعری میں ملت کی حیثیت ایک بلند مقصد اور مقصدی جدوجہد کی نمائندگی کرتی ہے، جہاں ہر فرد اپنی ذاتی شناخت کو ایک عظیم اجتماعی مقصد کے تحت سمجھتا ہے۔ اقبال کا “خودی” کا تصور اقوام و ملل کی ترقی کا بنیادی اصول ہے، کیونکہ ان کے نزدیک فرد کی خودی ہی پورے معاشرے کی خودی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ ان کی غزلوں اور نظموں میں ملت کے عروج کے لیے یکجہتی، اتحاد اور علم کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ وہ اقوام کے زوال کو ان کی روحانیت اور فکری کمزوریوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں، اور ان کے مطابق حقیقی طاقت علم، حکمت، اور خودی میں مضمر ہے۔ اقبال کی شاعری میں مسلمانوں کی عالمی شناخت، ان کی تہذیبی وراثت اور اس کے احیاء کی شدید آرزو دیکھی جاتی ہے، جہاں وہ ہر قوم کو اپنی فردیت کے ساتھ ساتھ عالمی فلاح کی ذمہ داری محسوس کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کے اس فکری اور فلسفیانہ نقطۂ نظر میں اقوام و ملل کے لیے ایک مضبوط اخلاقی اور فکری بنیاد ہے، جسے عملی طور پر نافذ کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔