جدید اردو نظم میں تصورِ دعا ایک اہم موضوع بن کر ابھرا ہے، جس نے شاعری کو روحانیت، انسانیت اور معاشرتی مسائل کے ساتھ جوڑا ہے۔ کلاسیکی اردو شاعری میں دعا کو عموماً فرد کی ذاتی تعلقات کے حوالے سے اللہ سے رجوع کرنے کے طور پر پیش کیا گیا تھا، مگر جدید اردو نظم میں دعا کا تصور زیادہ وسیع اور جامع ہوگیا ہے۔ جدید شاعروں نے دعا کو نہ صرف فرد کی ذات بلکہ اجتماعی مسائل، جنگ، فقر، محبت اور امن کے حوالے سے بھی بیان کیا۔ ان نظموں میں دعا ایک ذریعہ بنتی ہے جس کے ذریعے انسان اپنی اندرونی خواہشات، امیدیں اور دکھ درد کو کائنات کے ساتھ جوڑتا ہے۔ دعا کی فکری جہتیں بڑھ کر معاشرتی اور اخلاقی میدانوں تک پہنچ گئی ہیں، جہاں شاعری کو انسانیت کے مسائل سے جوڑا گیا ہے۔ نئے دور کے شاعروں جیسے احمد فراز، فیض احمد فیض، اور صادقہ جہاں نے دعا کو محض عبادت یا پناہ گاہ نہیں بلکہ ایک نیا آہنگ، خواہش اور برابری کی علامت کے طور پر پیش کیا۔ ان کی نظموں میں دعا صرف فرد کی ذاتی فلاح کے لیے نہیں، بلکہ پورے سماج کی فلاح و بہبود اور امن کی تلاش کے طور پر سامنے آئی۔