یکتائی اور تنوع” کی تخلیقی مثال اردو ادب میں مختلف ناول نگاروں کے کام میں واضح طور پر نظر آتی ہے، خاص طور پر ارضِ لکھنؤ اور اس سے وابستہ تین اہم ناول نگاروں—احسن فاروقی، شوکت صدیقی، اور قرۃ العین حیدر—کی تخلیقات میں۔ ارضِ لکھنؤ کی خاص ثقافتی اور سماجی حیثیت نے ان مصنفین کو ایک مشترکہ فکری اور تخلیقی زمین فراہم کی، مگر ان کی تحریریں مختلف نوعیت کی تھیں۔ احسن فاروقی نے “کئی چاند تھے سرِ آسمان” میں لکھنؤ کی قدیم ثقافت اور اس کے زوال کی داستان کو بیان کیا، جس میں ایک گہرا ادبی حسن اور سماجی تنقید تھی۔ شوکت صدیقی نے “خاک اور خون” میں تقسیم ہندوستان کے بعد کی سیاسی اور سماجی کشمکش کو موضوع بنایا، جس میں انسان کے اندرونی تضاد اور شناخت کا مسئلہ اجاگر کیا گیا۔ قرۃ العین حیدر نے “آگ کا دریا” میں تاریخ اور جغرافیہ کی سرحدوں کو مٹاتے ہوئے انسان کے روحانی سفر کو پیش کیا، جس میں جدیدیت اور روایات کا ایک منفرد امتزاج تھا۔ یہ تینوں ناول نگار مختلف اسلوب اور موضوعات کے ذریعے اردو ادب میں یکتائی اور تنوع کی تخلیقی مثالیں فراہم کرتے ہیں۔