گلگت بلتستان کی اردو شاعری میں مزاحمت کے سیاسی و سماجی زاویوں کا مطالعہ اس خطے کی تاریخی، سیاسی اور سماجی حقیقتوں کی عکاسی کرتا ہے، جہاں مقامی لوگوں نے اپنی شناخت، حقوق اور آزادی کے لیے طویل عرصے تک مزاحمت کی ہے۔ گلگت بلتستان کی شاعری میں مزاحمت کی جڑیں یہاں کے عوام کے استحصال، قدرتی وسائل پر اجارہ داری اور سیاسی خودمختاری کی کمی سے جڑی ہوئی ہیں۔ اردو شاعری میں مزاحمت کا آغاز مقامی سیاسی اور سماجی مسائل کی حقیقت کو شاعری کے ذریعے اجاگر کرنے سے ہوا، اور یہ شاعری محض فن یا جمالیاتی اظہار کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک طاقتور سیاسی بیانیہ کے طور پر سامنے آئی۔سیاسی زاویے سے دیکھیں تو گلگت بلتستان کی شاعری میں استعماری طاقتوں اور مقامی حکمرانوں کے ظلم و جبر کی کھل کر مذمت کی گئی ہے۔ یہاں کی شاعری نے سیاسی خودمختاری کی کمی اور حکومتی سطح پر عوامی حقوق کی پامالی کو موضوع بنایا ہے۔ اس شاعری میں عوام کے جذبات کی ایک گہری ترجمانی کی گئی ہے، جس میں آزادی اور خودمختاری کی جدوجہد کو اہمیت دی گئی ہے۔ اس خطے کی شاعری میں قومی یکجہتی اور عوامی بیداری کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے تاکہ سیاسی نظام میں تبدیلی لائی جا سکے۔ شاعر اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام کو اپنی شناخت کے حوالے سے عالمی سطح پر تسلیم شدہ حقوق کا حصول ضروری ہے۔گلگت بلتستان کی اردو شاعری میں مزاحمت کے یہ زاویے ایک گہری اور کثیر الجہتی بیانیہ تشکیل دیتے ہیں جو نہ صرف اس خطے کی تاریخ اور جغرافیہ کو بلکہ اس کے لوگوں کی نفسیات اور ان کے معاشرتی، سیاسی حقوق کے حوالے سے جدوجہد کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ شاعری کی یہ شکل عوامی بیداری اور مزاحمت کے لئے ایک طاقتور ذریعہ بن گئی ہے، جو خطے کے لوگوں کو نہ صرف اپنی موجودہ حالت کا جائزہ لینے کی دعوت دیتی ہے بلکہ انہیں مستقبل کے لیے ایک نئے راستے کی طرف رہنمائی بھی فراہم کرتی ہے۔