ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کے انشائیوں میں عصری شعور کی جھلک ایک گہری بصیرت اور تفکر کی عکاسی کرتی ہے۔ انشائیہ نگاری کے اس منفرد طریقے میں، ڈاکٹر قزلباش نے نہ صرف موجودہ دور کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل پر روشنی ڈالی ہے بلکہ ان کی تحریروں میں انسانی جذبات، معاشرتی تضادات، اور فرد کی اندرونی کیفیتوں کو نہایت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کے انشائیوں میں عصری شعور کا جو پہلو سامنے آتا ہے، وہ اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو موجودہ دور کی حقیقتوں سے آگاہ کرتے ہیں، ان کے اندر کی پیچیدگیاں اور بیرونی دنیا کے تضادات کو ایک نیا زاویہ فراہم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش کی تحریریں نہ صرف معاصر مسائل کا عکاس ہیں بلکہ ان میں انفرادی آزادی، فکری انقلاب اور سماجی انصاف جیسے موضوعات پر بھی غور و فکر کا آغاز ہوتا ہے۔ ان کی زبان سادہ مگر اثر انگیز ہے، جو پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے اور اسے نئے نظریات اور تصورات سے متعارف کرواتی ہے۔ انشائیہ کی صنف میں انہوں نے اپنی تحریروں کو ایک ذاتی تجربے اور مشاہدے کی صورت میں پیش کیا ہے، جس سے قارئین کا رشتہ نہ صرف فکری طور پر مضبوط ہوتا ہے بلکہ وہ ان کے خیالات سے جذباتی طور پر بھی جڑتے ہیں۔ عصری شعور کا یہ پہلو ان کے انشائیوں کو محض سطحی تفریح سے بڑھ کر ایک گہرے فکری تجربے میں تبدیل کرتا ہے، جو ان کے ادبی سفر کی ایک اہم خصوصیت ہے۔