کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی تحقیق و تنقید کا مطالعہ نو تاریخیت کے تناظر میں

ڈاکٹر تبسم کاشمیری اردو ادب کی دنیا میں ایک معتبر اور فکر انگیز نقاد، محقق اور دانشور کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا تحقیقی اور تنقیدی کارنامہ نہ صرف اردو زبان کی جمالیاتی اقدار کا تجزیہ کرتا ہے بلکہ وہ ادب کے تاریخی، ثقافتی اور سیاسی حوالوں کو بھی عمیق نظر سے پرکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ نو تاریخیت (New Historicism) ایک ایسا تنقیدی نظریہ ہے جو ادب اور تاریخ کو باہم مربوط مانتا ہے، اور اس کے مطابق ادبی متون کو محض جمالیاتی اصولوں پر نہیں بلکہ اس عہد کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی سیاق میں پڑھا جانا چاہیے جس میں وہ تخلیق ہوئے۔ اس تناظر میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی تحریروں کا مطالعہ ادب اور تاریخ کے باہمی رشتے کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

نو تاریخیت کا آغاز 1980 کی دہائی میں امریکی نقاد اسٹیفن گرین بلاٹ (Stephen Greenblatt) کی تحریروں سے ہوا۔ یہ نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ ادب کو اس کے سماجی اور تاریخی تناظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ ادبی متون کو “تاریخی دستاویز” کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے جو اپنے دور کی طاقت، مزاحمت، طبقاتی ساخت اور ثقافتی بیانیے کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس نظریے کے تحت، ادیب بھی ایک ثقافتی پروردہ ہوتا ہے جو دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے عہد کے نظریاتی سانچوں میں لکھتا ہے۔

تبسم کاشمیری کی تنقید محض جمالیاتی یا فنّی اقدار کی پرکھ تک محدود نہیں بلکہ وہ ادب کو سماج، تاریخ اور تہذیب کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ ان کے تنقیدی مضامین میں تاریخی شعور کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ وہ اردو تنقید کو صرف حسن و قبح یا فنی توازن کی بحث سے نکال کر ایک فکری اور تاریخی مکالمہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تبسم کاشمیری کا یہ ماننا ہے کہ اردو ادب کی ترقی محض فنونِ لطیفہ کی مہارت نہیں بلکہ سیاسی، تاریخی اور تہذیبی عوامل کا نتیجہ ہے۔ ان کی کتاب اردو ادب کی مختصر تاریخ ہو یا ادب کی تفہیم، دونوں میں واضح طور پر نو تاریخیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہ میر، غالب، سرسید، حالی، اقبال اور دیگر شعرا و ادبا کے فکری رویوں کو ان کے مخصوص تاریخی تناظر میں پرکھتے ہیں۔

مثلاً حالی کے متعلق ان کا تجزیہ صرف اصلاحی تنقید پر مرکوز نہیں بلکہ وہ اسے نوآبادیاتی عہد کے فکری تضادات اور سرسید تحریک کے سیاسی مضمرات کے ساتھ جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ اس اندازِ فکر میں نو تاریخیت کی وہ جہت نمایاں ہوتی ہے جو ادبی بیانیے کو تاریخی بیانیے کے ساتھ جوڑ کر پڑھتی ہے۔

نو تاریخیت کے تحت نوآبادیاتی عہد کی ادب پر گرفت ایک اہم موضوع رہا ہے۔ تبسم کاشمیری کی تحریروں میں بھی ہمیں برطانوی استعمار کے اثرات اور مسلم اشرافیہ کی ذہنی تشکیل کا گہرا مطالعہ ملتا ہے۔ وہ سرسید، شبلی، اور حالی جیسے مفکرین کے کام کو ایک ایسے زاویے سے پرکھتے ہیں جہاں استعمار کی علمی سیاست اور مقامی دانشوروں کی ردعملی حکمتِ عملی واضح ہوتی ہے۔

ان کی تحریریں اس امر کی عکاسی کرتی ہیں کہ نوآبادیاتی طاقتوں نے کس طرح علم و ادب کے ذرائع کو اپنے حق میں استعمال کیا اور مقامی ادیبوں، شعرا اور مفکرین نے اس اثر کو کس طرح قبول یا رد کیا۔

تبسم کاشمیری اردو ادب میں جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی تحریکوں پر بھی فکری گہرائی کے ساتھ روشنی ڈالتے ہیں۔ وہ ان تحریکوں کے محض نظریاتی پہلوؤں تک محدود نہیں رہتے بلکہ انہیں تہذیبی، عمرانی اور تاریخی فریم میں رکھ کر پرکھتے ہیں۔ نو تاریخیت کے اصولوں کے مطابق، وہ یہ باور کراتے ہیں کہ ادب صرف فرد کی داخلی کیفیات کا اظہار نہیں بلکہ اجتماعی شعور، لاشعور، اقتدار، اور مزاحمت کی کہانی بھی ہے۔

ان کے مضامین میں جو تنقیدی مزاج دکھائی دیتا ہے، وہ ادب کو خالص ثقافتی مظہر سمجھتا ہے، جس میں سماج، تاریخ، سیاست، جنس، اور طاقت کا تانا بانا رچا بسا ہوتا ہے۔

تبسم کاشمیری نے اردو تنقید کے ارتقائی سفر کو ایک جامع تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ وہ میر، سودا، غالب جیسے کلاسیکی شعرا سے لے کر منٹو، انتظار حسین اور ن م راشد جیسے جدید اور مابعد جدید ادیبوں کا تنقیدی جائزہ ان کے تہذیبی، تاریخی اور فکری پس منظر کے تناظر میں پیش کرتے ہیں۔

نو تاریخیت کے نقطہ نظر سے یہ مطالعہ ہمیں اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ ہم ادب کو ایک مسلسل سماجی اور سیاسی جدوجہد کے اظہار کے طور پر پڑھیں نہ کہ صرف جمالیاتی لطف اندوزی کی شے سمجھیں۔

ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی تنقید، ادب کی تاریخ، اس کے سماجی و تہذیبی عوامل، اور ادیب کے شعوری و لاشعوری بیانیے کو جس طرح منظم اور فکری انداز میں سمجھاتی ہے، وہ نو تاریخیت کے اصولوں سے ہم آہنگ ہے۔ وہ اردو ادب کو محض روایت کے تسلسل کے طور پر نہیں بلکہ ایک فعال فکری مظہر کے طور پر دیکھتے ہیں، جس میں ہر عہد کا مخصوص بیانیہ چھپا ہوتا ہے۔ ان کی تحریریں اردو تنقید میں نہ صرف فکری گہرائی پیدا کرتی ہیں بلکہ قاری کو ادب اور تاریخ کے پیچیدہ رشتے پر غور کرنے کی دعوت بھی دیتی ہیں۔ نو تاریخیت کے تناظر میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری کا تنقیدی کارنامہ اردو ادب کے تنقیدی سرمایے میں ایک روشن باب کی حیثیت رکھتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں