ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری اردو کے ممتاز دانشور، مترجم، ادیب، افسانہ نگار، محقق، نقاد اور صحافی تھے جنہوں نے بیسویں صدی کے ابتدائی اور وسطی عشروں میں اردو ادب کو ایک فکری اور نظریاتی سمت عطا کی۔ ان کی شخصیت کئی جہات کی حامل تھی: وہ ایک طرف ترقی پسند تحریک کے بانی رکن تھے تو دوسری طرف اردو میں جدید لسانی، نفسیاتی اور تنقیدی میلانات کے علمبردار بھی رہے۔ انہوں نے ترجمہ، افسانہ، تنقید، صحافت، اور درس و تدریس جیسے شعبوں میں بھرپور خدمات انجام دیں اور اردو ادب کو ایک عالمی اور نظریاتی فریم ورک عطا کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے صرف تحریری سطح پر نہیں بلکہ عملی سطح پر بھی اردو زبان و ادب کے فروغ میں زندگی وقف کی۔ اختر حسین رائے پوری کا تعلق ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش سے تھا جہاں وہ 1912ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی ابتدائی تعلیم علی گڑھ میں ہوئی اور بعد ازاں انہوں نے اعلیٰ تعلیم یورپ سے حاصل کی، جہاں انہوں نے مغربی افکار، اشتراکیت، مارکسی نظریات، نفسیات اور عالمی ادبی میلانات کا گہرا مطالعہ کیا۔ ان کا علمی پس منظر اور بین الاقوامی فہم انہیں اردو ادب میں ایک مختلف اور منفرد مقام عطا کرتا ہے۔ یورپی تعلیم کے اثرات ان کے افکار، ترجمہ نگاری، تنقید، اور ادبی رویوں میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ اختر حسین رائے پوری ترقی پسند تحریک کے ابتدائی علمبرداروں میں شامل تھے، اور انہوں نے اس تحریک کے تحت ادب کو سماجی تبدیلی، طبقاتی جدوجہد، انسانی آزادی، اور استحصال کے خلاف مزاحمت کا آلہ بنایا۔ ان کے مضامین اور تحریریں ادب کو ایک مقصدی، فعال اور بیدار شعور رکھنے والا ذریعہ بنانے پر زور دیتی ہیں۔ انہوں نے ادب کو محض تفریح یا حسنِ بیان کا مظہر نہیں مانا بلکہ اسے انسان کی اجتماعی تقدیر بدلنے کا ایک موثر ذریعہ سمجھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں اور ترجموں میں نظریاتی وابستگی اور فکری استقامت نمایاں ہے۔
افسانہ نگاری میں اختر حسین رائے پوری نے اردو ادب کو ایک نئی فکر اور اسلوب سے متعارف کرایا۔ ان کے افسانے محض رومانی یا جذباتی موضوعات پر مشتمل نہیں بلکہ وہ سماجی، سیاسی اور فکری مسائل پر مبنی ہوتے ہیں۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں معاشی نابرابری، جاگیرداری ظلم، مزدوروں کی حالت، عورت کی بے بسی، اور سامراجی قوتوں کے خلاف نفسیاتی مزاحمت جیسے موضوعات کو موضوع بنایا۔ ان کا اسلوب حقیقت نگاری پر مبنی ہے اور وہ زندگی کو اس کے تلخ ترین پہلوؤں کے ساتھ پیش کرتے ہیں تاکہ قاری کو صرف محظوظ کرنے کے بجائے اسے سوچنے، سوال کرنے اور شعور حاصل کرنے پر آمادہ کیا جا سکے۔ ان کا مشہور افسانہ پردہ اٹھ گیا ایک علامتی بیانیہ ہے جس میں نہ صرف عورت کی حالت زار کو اجاگر کیا گیا ہے بلکہ پوری معاشرتی منافقت کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ ان کی تنقیدی تحریریں اردو ادب میں گہری بصیرت کی حامل ہیں۔ انہوں نے ادب کا مطالعہ صرف تخلیقی حسن یا جمالیات کی بنیاد پر نہیں کیا بلکہ اس میں سماجی تناظر، تاریخی شعور اور نظریاتی وابستگی کو مرکزی حیثیت دی۔ انہوں نے اپنی تنقید میں مارکسی تنقید، نفسیاتی تنقید اور ساختیاتی شعور کی آمیزش کے ساتھ اردو ادب کو ایک علمی سطح پر لے جانے کی کوشش کی۔ ان کا عقیدہ تھا کہ ادب کو محض جمالیاتی اقدار کے تناظر میں دیکھنا ادھورا رویہ ہے، بلکہ ادب کو سماجی تشکیل، تاریخی شعور، اور انسانی آزادی کے تناظر میں دیکھنا زیادہ بامعنی ہے۔
ترجمہ نگاری میں ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری نے عالمی ادب کے اہم ترین شاہکاروں کو اردو میں منتقل کیا۔ انہوں نے روسی، انگریزی اور یورپی ادیبوں جیسے ٹالسٹائی، چیخوف، گوگول، اور ڈوسٹویفسکی کی تخلیقات کو اردو میں ترجمہ کر کے نہ صرف اردو قارئین کو عالمی ادب سے متعارف کرایا بلکہ اردو زبان کے فکری دائرے کو بھی وسعت دی۔ ان کے ترجمے محض لغوی تبدیلی نہیں ہوتے بلکہ وہ اصل متن کی روح کو اردو میں اس خوبی سے منتقل کرتے ہیں کہ ترجمہ اصل سے زیادہ قریب محسوس ہوتا ہے۔ ان کی ترجمہ نگاری اردو زبان کی لطافت، معنویت اور اظہار کی قوت کا زندہ ثبوت ہے۔ صحافت کے میدان میں بھی ان کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔ انہوں نے مختلف اخبارات و جرائد کے ذریعے عوام کو نہ صرف سیاسی اور سماجی شعور دیا بلکہ اردو زبان میں صحافت کی علمی سطح بلند کی۔ وہ ایک ایسے صحافی تھے جو تحقیق، ادب اور شعور کو صحافت کے ساتھ جوڑتے تھے۔ ان کی صحافتی تحریریں سادگی، معنویت، اور مقصدیت کا نمونہ ہیں۔ درس و تدریس کے شعبے میں بھی ان کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ وہ متعدد اداروں سے وابستہ رہے اور اردو، ادب، فلسفہ اور تنقید کے موضوعات پر لیکچر دیتے رہے۔ ان کا انداز تدریس علمی، استدلالی اور تحریکی تھا۔ انہوں نے نئی نسل کے ادیبوں کو نہ صرف ادب سے محبت کرنا سکھایا بلکہ ادب کو ایک فکری اور اخلاقی ذمہ داری کے طور پر برتنے کی تعلیم بھی دی۔
اختر حسین رائے پوری کی شخصیت دراصل اس فکری ادیب کی ہے جو قلم کو صرف فن کے لیے نہیں بلکہ انسانی بیداری، معاشرتی اصلاح اور فکری آزادی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ان کی تحریروں میں مقصدیت، سچائی اور سماجی شعور کا جو عنصر نمایاں ہے، وہ آج کے دور میں اردو ادب کو ایک زندہ اور متحرک روایت سے جوڑتا ہے۔ وہ اردو ادب میں ایک ایسا باب ہیں جس نے نہ صرف عالمی فکر کو اردو میں منتقل کیا بلکہ اردو زبان کو عالمی فکری دھارے سے جوڑنے کا کام بھی کیا۔ ان کا علمی سرمایہ، فکری ورثہ اور تخلیقی شعور اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ نمایاں رہے گا اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی رہنمائی کا ذریعہ بنتا رہے گا۔ اختر حسین رائے پوری کی حیات اور آثار ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ ادب کا اصل مقصد صرف حسنِ بیان نہیں بلکہ سماج کی تشکیل نو، انسانی شعور کی بیداری، اور سچائی کی تلاش ہے۔