کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

پریم چند کی غیر افسانوی نگارشات کا تنقیدی مطالعہ

پریم چند اردو اور ہندی ادب کا وہ نام ہے جس نے برصغیر کی سماجی، سیاسی اور فکری زندگی کو ادب کے آئینے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر دیا۔ ان کا اصل میدان اگرچہ افسانہ اور ناول ہے، لیکن ان کی غیر افسانوی تحریریں — یعنی مضامین، تقاریر، خطوط، دیباچے اور تنقیدی تحریریں — بھی کم اہم نہیں۔ دراصل پریم چند کی فکری گہرائی، سماجی شعور اور ادبی بصیرت کا صحیح اندازہ انہی غیر افسانوی نگارشات سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ تحریریں نہ صرف ان کے زمانے کی فکری کشمکش کی نمائندہ ہیں بلکہ آج کے دور میں بھی ان کی معنویت باقی ہے۔ ان میں ایک مصلح، مفکر اور سماجی ناقد کی آواز سنائی دیتی ہے جو ادب کو محض تفریح نہیں بلکہ انسانی شعور کی بیداری کا وسیلہ سمجھتا ہے۔

پریم چند کی غیر افسانوی تحریریں موضوع کے لحاظ سے نہایت متنوع ہیں۔ ان میں ادب و فن پر مباحث، قومی آزادی کی تحریک، طبقاتی ناہمواری، کسانوں کی بدحالی، تعلیم، عورت کے حقوق، اور مذہبی تنگ نظری جیسے مسائل نمایاں ہیں۔ وہ ایک ایسے ادیب تھے جو زندگی کے حقیقی مسائل سے منہ نہیں موڑتے تھے بلکہ ان کا سامنا کرتے تھے۔ ان کی تحریروں میں ایک واضح نظریۂ حیات موجود ہے جس کے مطابق ادب کا مقصد انسان کو انسانیت کے اعلیٰ ترین معیار تک پہنچانا ہے۔ پریم چند نے ادب کو سماج کی اصلاح کا ذریعہ سمجھا اور یہی تصور ان کی تقریروں اور مضامین میں بار بار جھلکتا ہے۔

ان کے غیر افسانوی ادب کا سب سے نمایاں پہلو ادبی نظریہ ہے۔ پریم چند نے اپنے کئی مضامین میں ادب کے مقصد اور کردار پر بحث کی۔ ان کے مشہور مضمون “ادب برائے زندگی” میں وہ لکھتے ہیں کہ ادب کا تعلق زندگی سے ہے، اور جو ادب زندگی کے دکھ، درد، اور جدوجہد سے الگ ہو جائے وہ بے معنی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہم ادب کو اس لیے نہیں پڑھتے کہ ہمیں مسرت حاصل ہو بلکہ اس لیے کہ ہم بہتر انسان بن سکیں۔‘‘ یہ خیال اُس وقت کے ’’ادب برائے ادب‘‘ کے رجحان کے خلاف ایک اعلان تھا۔ نوآبادیاتی دور میں جب ادب کو محض جمالیاتی تسکین کا وسیلہ سمجھا جا رہا تھا، پریم چند نے اسے سماجی شعور اور عوامی بیداری کا ہتھیار بنا دیا۔ ان کے نزدیک ادیب کا کام یہ نہیں کہ وہ دنیا سے منہ موڑ لے بلکہ وہ سماج کی خامیوں کو آئینہ دکھائے۔

پریم چند کے غیر افسانوی ادب میں سیاسی شعور بھی نہایت گہرا ہے۔ وہ آزادیٔ ہند کی تحریک سے گہرا تعلق رکھتے تھے اور انگریز حکومت کے مظالم کے خلاف قلمی جہاد میں شریک تھے۔ ان کے مضامین مثلاً “قومیت کا مفہوم”، “ہندوستانی تہذیب”، اور “ہمارے سیاسی رہنما” میں قومی یکجہتی، مذہبی رواداری اور انسان دوستی کی روح جھلکتی ہے۔ وہ قوم پرستی کو تنگ نظری سے الگ ایک انسانی جذبے کے طور پر دیکھتے تھے۔ ان کے نزدیک سچی قوم پرستی وہی ہے جو انصاف، مساوات اور اخوت پر مبنی ہو۔ پریم چند نے ہندو مسلم اتحاد کو برصغیر کی ترقی کی بنیاد قرار دیا، اور یہی جذبہ ان کی نثر میں ایک اخلاقی قوت کی صورت اختیار کرتا ہے۔

ان کی غیر افسانوی تحریروں کا ایک اہم پہلو سماجی تنقید ہے۔ وہ ہندوستانی سماج کی طبقاتی تقسیم اور استحصالی نظام پر سخت تنقید کرتے ہیں۔ وہ کسانوں، مزدوروں، عورتوں اور دلتوں کے مسائل کو نہ صرف بیان کرتے ہیں بلکہ ان کی وجوہات پر بھی غور کرتے ہیں۔ ان کے مضمون “ہماری اقتصادی حالت” میں وہ واضح کرتے ہیں کہ ایک غیر منصفانہ سماجی ڈھانچہ کیسے عام انسان کی زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ ان کی تحریروں میں انسان دوستی کے ساتھ ساتھ ایک انقلابی احساس بھی موجود ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ سماج میں انصاف اور برابری قائم ہو، اور یہی فکر ان کے افسانوی اور غیر افسانوی دونوں ادب میں بنیادی قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔

پریم چند کی غیر افسانوی تحریریں زبان و بیان کے لحاظ سے بھی نہایت دلکش ہیں۔ ان کی نثر سادہ مگر پُراثر ہے۔ وہ فلسفیانہ یا ادبی موشگافیوں میں الجھنے کے بجائے عام فہم انداز میں بات کرتے ہیں۔ ان کی زبان میں سچائی، خلوص اور درد کی تاثیر ہے۔ وہ اپنے قاری سے براہِ راست مخاطب ہوتے ہیں، جیسے کوئی مصلح یا بزرگ اپنے شاگرد سے بات کر رہا ہو۔ ان کے جملوں میں اخلاقی طاقت اور فکری توازن موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریریں آج بھی تازگی اور اثر انگیزی کا احساس دلاتی ہیں۔

پریم چند کے خطوط بھی ان کی غیر افسانوی نثر کا اہم حصہ ہیں۔ ان میں ان کے شخصی خیالات، ادبی نظریات، اور زمانے کی فکری کشمکش کا عکس نظر آتا ہے۔ ان کے خطوط میں ایک ادیب کی حساسیت اور ایک مفکر کی بصیرت دونوں جھلکتی ہیں۔ ان خطوط سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پریم چند اپنے عہد کی سیاست، معیشت، تعلیم اور سماجی مسائل سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔ ان کی تحریریں محض نظری نہیں بلکہ عملی زندگی کے تجربات پر مبنی تھیں۔

تنقیدی طور پر اگر دیکھا جائے تو پریم چند کی غیر افسانوی نثر اردو ادب میں ترقی پسند تحریک کی فکری بنیادیں فراہم کرتی ہے۔ وہ اگرچہ ترقی پسند تحریک کے باقاعدہ رکن نہیں تھے، مگر ان کے خیالات نے بعد کی نسل کے ادیبوں کو متاثر کیا۔ ان کا یہ نظریہ کہ ’’ادب کو انسان کے دکھ درد کا ساتھی ہونا چاہیے‘‘ بعد کے ترقی پسندوں کے لیے مشعلِ راہ بن گیا۔ وہ فن کے لیے فن کے بجائے فن برائے انسانیت کے قائل تھے۔ ان کی غیر افسانوی تحریریں ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ ادیب صرف تماشائی نہیں بلکہ سماج کا ذمہ دار شہری بھی ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ پریم چند کی غیر افسانوی نگارشات ان کے فکری ارتقا، ادبی نظریے اور انسان دوستی کے جذبے کی آئینہ دار ہیں۔ ان میں ہمیں ایک ایسا ادیب نظر آتا ہے جو قلم کو اصلاحِ معاشرہ کا ذریعہ سمجھتا ہے، جو ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا ہے، اور جو انسانیت کی خدمت کو ادب کا حقیقی مقصد قرار دیتا ہے۔ ان کی نثر میں حقیقت نگاری کے ساتھ ایک اخلاقی حرارت بھی موجود ہے۔ وہ ادیب جس نے کسانوں، مزدوروں، اور محکوم طبقوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا، وہی پریم چند اپنی غیر افسانوی تحریروں میں ان کے حقوق کی وکالت کرتا ہے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ پریم چند کی غیر افسانوی نگارشات اردو ادب میں ایک فکری ورثہ ہیں۔ وہ ہمیں یہ سبق دیتی ہیں کہ ادب زندگی سے الگ کوئی شے نہیں، بلکہ زندگی کی حقیقتوں کو سمجھنے اور بدلنے کا ایک ذریعہ ہے۔ ان کے مضامین آج بھی اس لیے زندہ ہیں کہ وہ کسی ایک زمانے کے لیے نہیں بلکہ ہر اس عہد کے لیے لکھے گئے ہیں جہاں انسان کو انصاف، برابری، اور انسانیت کی تلاش ہے۔ ان کی تحریریں اردو نثر کے اس سنجیدہ اور باشعور رخ کی نمائندہ ہیں جو ادب کو محض فن نہیں بلکہ فکر، عمل اور اخلاق کا اظہار سمجھتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں