پریم چند اردو اور ہندی دونوں زبانوں کے عظیم افسانہ نگار، ناول نویس اور سماجی مصلح کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان کی شخصیت برصغیر کی اس ادبی تحریک کی علامت ہے جس نے ادب کو محض تفریح یا لفظوں کا کھیل نہیں بلکہ سماج کی اصلاح اور انسان کی بیداری کا ذریعہ بنایا۔ پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ وہ 1880ء میں بنارس کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں لمہی میں پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن غربت اور محرومی میں گزرا جس نے ان کے اندر حساسیت، درد مندی اور عام آدمی کے دکھ کو محسوس کرنے کی صلاحیت پیدا کی۔ ابتدا میں انہوں نے فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کی اور پھر ملازمت کے ساتھ ساتھ ادبی ذوق کو پروان چڑھایا۔ ان کی ابتدائی تحریریں رومانی رنگ رکھتی تھیں مگر جلد ہی وہ حقیقت نگاری کی طرف مائل ہو گئے اور ان کے فن میں سماجی شعور نے مرکزی حیثیت اختیار کر لی۔
پریم چند کی تحریروں میں سب سے نمایاں پہلو حقیقت پسندی اور اصلاحی جذبہ ہے۔ وہ معاشرے کے ان پہلوؤں کو موضوع بناتے ہیں جو عموماً نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ ان کے کردار کسان، مزدور، غریب عورتیں، ماتحت ملازمین، معصوم بچے اور کمزور طبقے کے وہ لوگ ہیں جو معاشرتی جبر کا شکار ہیں۔ پریم چند نے ادب کو ان مظلوم طبقات کی آواز بنایا۔ ان کا ناول ’’گودان‘‘ ان کے فکری ارتقا کی معراج سمجھا جاتا ہے۔ اس میں انہوں نے ایک کسان ہُلو کی زندگی کے ذریعے پورے ہندوستانی دیہی نظام کا المیہ بیان کیا۔ زمین داروں، مہاجنوں، پجاریوں اور سرکاری اہلکاروں کے ظلم و استحصال کے خلاف ان کی تحریر ایک احتجاج کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ ’’گودان‘‘ کا ہر صفحہ قاری کو اس کرب سے روشناس کراتا ہے جو ایک محنت کش انسان اپنے حقوق سے محروم ہو کر سہتا ہے۔
پریم چند کا فن محض احتجاج نہیں بلکہ امید کا استعارہ بھی ہے۔ ان کے کردار اگرچہ حالات سے مایوس نظر آتے ہیں مگر وہ اخلاقی طور پر مضبوط اور ایمان دار رہتے ہیں۔ وہ انقلابی نعروں کے بجائے انسانی شرافت اور دیانت کو نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک سماج کی اصلاح قلم، فکر اور تعلیم کے ذریعے ممکن ہے۔ ان کا ایک اور ناول ’’نِرمالا‘‘ عورت کی مظلومیت اور خاندانی نظام کے تضادات کو اجاگر کرتا ہے۔ اس میں پریم چند نے عورت کے جذبات، اس کی عزتِ نفس اور سماجی دباؤ کے مسائل کو نہایت حقیقت پسندی سے بیان کیا۔ اردو ادب میں اس سے پہلے عورت کو اتنی ہمدردی اور گہرائی سے شاید ہی کسی نے پیش کیا ہو۔
پریم چند کے افسانے ان کے ناولوں کی طرح دل کو چھو لینے والے ہیں۔ ان کے افسانوں میں سادگی، اختصار اور حقیقت کی قوت پائی جاتی ہے۔ ’’کفن‘‘، ’’دو بیل‘‘، ’’پوس کی رات‘‘، ’’پریشرم‘‘، ’’بابو‘‘، ’’بیویاں‘‘، ’’نئے مہمان‘‘، ’’نیا قانون‘‘ جیسے افسانے اردو ادب کے کلاسیکی نمونوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان افسانوں میں معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ اخلاقی کشمکش بھی پائی جاتی ہے۔ ’’کفن‘‘ میں غریب باپ بیٹے کی کہانی ہے جو اپنی بیوی اور بہو کی لاش کے کفن کے پیسے شراب میں اڑا دیتے ہیں۔ بظاہر یہ عمل اخلاقی انحطاط دکھاتا ہے مگر درحقیقت یہ اس بے بسی کی انتہا ہے جو بھوک اور غربت انسان پر مسلط کر دیتی ہے۔ پریم چند کے نزدیک انسان کی بدی بھی اکثر سماجی حالات کا نتیجہ ہوتی ہے نہ کہ فطری شرارت کا۔
ان کے افسانوں کی زبان سادہ، عام فہم اور بے تکلف ہے۔ وہ تصنع اور بناوٹ سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے مکالمے فطری ہیں اور کردار حقیقی زندگی سے جڑے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ان کی تحریر میں گاؤں کی بولی، محاورے اور عوامی تاثر جھلکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے مصنوعی نہیں لگتے بلکہ زندگی کے قریب محسوس ہوتے ہیں۔ پریم چند نے کہانی کو فلسفہ بنانے کے بجائے فلسفے کو کہانی میں ڈھال دیا۔ ان کی نثر میں درد اور سچائی کا ایسا امتزاج ہے جو قاری کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔
پریم چند کے فن کا ایک نمایاں پہلو ان کی سماجی تنقید ہے۔ وہ معاشرتی ناانصافی، ذات پات کے نظام، مذہبی پیشوائیت اور دولت پرستی کے سخت مخالف تھے۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔ وہ کسی مخصوص نظریے کے پرچارک نہیں تھے بلکہ ایک حقیقی انسان دوست مصنف تھے۔ ان کے نزدیک ادب وہی ہے جو انسان کو بہتر بنائے، اس میں خیر، ہمدردی اور انسان دوستی کے جذبات پیدا کرے۔ اسی لیے انہوں نے کہا تھا کہ “ادب کا مقصد زندگی کی خدمت ہے۔”
ان کے یہاں مذہب اور اخلاقیات کا ایک متوازن تصور ملتا ہے۔ وہ مذہب کے نام پر منافقت کے مخالف تھے لیکن ایمان اور روحانیت کے قائل تھے۔ ان کے کئی کردار مذہب کو اخلاقی بیداری کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ وہ مذہب کی ظاہری رسوم کے بجائے اس کے باطنی پیغام پر زور دیتے ہیں۔ پریم چند کی تحریروں میں انسانیت کا درد مذہب سے بالاتر ہو کر جھلکتا ہے۔ ان کے نزدیک سب سے بڑی عبادت انسان کے دکھ کو کم کرنا ہے۔
اگر تنقیدی طور پر دیکھا جائے تو پریم چند کی تحریروں میں کبھی کبھار وعظیت کا رنگ غالب آ جاتا ہے۔ بعض کہانیوں میں وہ کرداروں کے ذریعے براہِ راست نصیحت کرتے نظر آتے ہیں جس سے فنی توازن کچھ متاثر ہوتا ہے۔ تاہم یہ پہلو ان کے اصلاحی جذبے کی شدت کی دلیل ہے۔ ان کی کمزوریاں بھی دراصل ان کے اخلاص کا ثبوت بن جاتی ہیں۔ ان کا مقصد فنی چمک دکھانا نہیں بلکہ قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑنا تھا۔ یہی خلوص ان کے فن کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
پریم چند کا اثر اردو اور ہندی ادب کی کئی نسلوں پر رہا۔ سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، احمد ندیم قاسمی اور غلام عباس جیسے افسانہ نگاروں نے حقیقت نگاری کی جو روایت آگے بڑھائی، اس کی بنیاد پریم چند ہی نے رکھی تھی۔ ان کی تحریریں آج بھی برصغیر کے سماجی مسائل پر روشنی ڈالتی ہیں اور ہمیں یہ احساس دلاتی ہیں کہ جب تک انسان کے اندر سے ظلم، لالچ اور ناانصافی ختم نہیں ہوتی، ادب کی ضرورت باقی رہے گی۔ پریم چند نے ادب کو زندگی کا آئینہ بنایا اور زندگی کو ادب کا حصہ۔ ان کا فن وقت کی قید سے آزاد ہے کیونکہ اس کی بنیاد انسانیت پر ہے۔ وہ لکھنے والے نہیں بلکہ سوچنے پر مجبور کرنے والے مصنف تھے۔ ان کی تحریریں آج بھی ہمیں دعوت دیتی ہیں کہ ہم انسان کی عزت، اس کی محنت اور اس کے دکھ کو سمجھیں اور ایک بہتر معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کریں۔ پریم چند نے اپنے قلم سے جو دیا روشن کیا وہ آج بھی اردو ادب کی روح کو منور کیے ہوئے ہے۔



