پاکستان میں مروجہ عدالتی زبان، جو بنیادی طور پر انگریزی اور فارسی نژاد اردو اصطلاحات پر مشتمل ہے، ایک مخصوص طبقے—جج، وکیل، اور قانونی ماہرین—کے فہم تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، جس کے باعث عام سائلین کے لیے عدالتی عمل کو سمجھنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ عدالتی زبان کا رسمی، دقیق اور غیر مانوس انداز نہ صرف عوامی سطح پر قانونی شعور کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ انصاف کے حصول کو بھی پیچیدہ اور طویل تر بنا دیتا ہے۔ عدالتوں میں استعمال ہونے والے الفاظ جیسے “حکم امتناعی”، “ریفرنس دائر کرنا”، “استغاثہ”، “وکیل صفائی”، “پیشی”، اور “ریمانڈ” جیسے الفاظ عام شہری کے لیے غیر مانوس اور بعض اوقات گمراہ کن ہوتے ہیں، جس کے باعث غلط فہمیاں اور قانونی پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ عدالتی زبان میں سادگی، وضاحت اور عوامی فہم کو مدنظر رکھا جائے۔ مقامی زبانوں یا سادہ اردو کے استعمال کو فروغ دیا جائے، عدالتی فیصلوں کا عام فہم خلاصہ مہیا کیا جائے، اور قانونی اصطلاحات کی وضاحت کے لیے ضلعی سطح پر تربیتی ورکشاپس یا ہیلپ ڈیسک قائم کیے جائیں۔ مزید یہ کہ عدالتی زبان کی سادگی کے لیے نصاب سازی میں اصلاحات اور قانونی ترجمہ نگاری کے رجحان کو فروغ دینا بھی ضروری ہے، تاکہ قانون صرف خواص کا نہیں بلکہ عوام کا بھی فہم بن سکے۔