کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

پاکستان میں دکنیات کی تحقیق، روایت اور امکانات

پاکستان میں دکنیات کی تحقیق، روایت اور امکانات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ دکنی ادب، جو دراصل جنوبی ہند کے مسلمان سلاطین کے دور میں پروان چڑھا، برصغیر کے اسلامی تہذیبی و ادبی سرمائے کا ایک اہم حصہ ہے، اور پاکستان میں اس پر تحقیق کی روایت اگرچہ محدود ہے، لیکن امکانات وسیع اور پُرامید ہیں۔ دکنیات کا دائرہ صرف زبان و ادب تک محدود نہیں بلکہ اس میں تاریخ، تمدن، تصوف، موسیقی، فنِ تعمیر، اور لسانی ارتقاء جیسے موضوعات بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں دکنی ادب پر باقاعدہ تحقیق کا آغاز قیامِ پاکستان کے بعد مختلف جامعات میں اردو ادب کے تحت ہونے والے تحقیقی کام سے ہوا، لیکن بدقسمتی سے اسے وہ اہمیت نہیں دی گئی جو اس کی تہذیبی اور ادبی حیثیت کے مطابق تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دکنی ادب کو جغرافیائی طور پر جنوبی ہند سے منسلک سمجھا گیا، حالانکہ اس کا فکری و تہذیبی تسلسل پورے برصغیر کے اسلامی معاشرے سے جڑا ہوا تھا۔

پاکستانی جامعات میں بعض اسکالرز نے دکنی شعر و ادب، بالخصوص دکنی مثنوی، قصیدہ، اور صوفیانہ کلام پر تحقیق کی، جن میں میر انیس کی دکنی مثنویاں، ولی دکنی، نصرتی، غواصی، اور ملا وجہی جیسے شعرا کے کام شامل ہیں۔ دکنی نثر پر بھی جزوی کام ہوا، مثلاً سب رس، کلمتہ الحق اور برہانِ محبت جیسے متون کی تدوین و تفہیم کی کوششیں کی گئیں، لیکن ان کو جدید تنقیدی نظریات کی روشنی میں پڑھنے اور تہذیبی تناظر سے جوڑنے کی راہیں ابھی بہت باقی ہیں۔

دکنیات کی روایت میں ایک اہم پہلو دکنی تصوف ہے، جو صوفیائے کرام کے کلام اور ان کے نظریات کے ذریعے نمایاں ہوتا ہے۔ پاکستانی تناظر میں دکنی تصوف کی گونج پنجابی، سندھی اور سرائیکی صوفی شاعری سے جڑتی محسوس ہوتی ہے، جو بین العلاقائی ادبی ہم آہنگی کا مظہر ہے۔ اس تناظر میں پاکستانی محققین کے لیے یہ ایک قیمتی موقع ہے کہ وہ دکنی ادب اور مقامی صوفی روایت کے تقابلی مطالعے سے نئے فکری امکانات دریافت کریں۔

امکانات کے حوالے سے دیکھا جائے تو پاکستان میں دکنیات پر تحقیق کا دائرہ کئی جہات میں پھیل سکتا ہے: (1) دکنی متون کی جدید تدوین اور تشریح، (2) دکنی ادب کا مابعدالاستعماری تناظر میں مطالعہ، (3) اردو زبان کی تشکیل میں دکنی روایت کا کردار، (4) دکنیات اور جنوبی ایشیائی ثقافت کا ربط، اور (5) دکنی صوفی ادب اور پنجابی/سندھی صوفی شاعری کا تقابلی جائزہ۔ اس ضمن میں پاکستان کی جامعات، اردو اکادمیوں اور تحقیقی اداروں کو چاہیے کہ وہ دکنی متون کو نصاب میں شامل کریں، تحقیقی منصوبوں کو فروغ دیں اور بین الجامعاتی اشتراک کے ذریعے برصغیر کی مشترکہ تہذیب کو محفوظ رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔

مختصر یہ کہ اگرچہ پاکستان میں دکنیات پر تحقیق کی روایت نسبتاً کمزور رہی ہے، لیکن اس کی علمی، ادبی اور تہذیبی اہمیت اتنی گہری ہے کہ اس پر مستقل اور منظم کام سے نہ صرف اردو ادب کا دامن وسیع تر ہو گا بلکہ برصغیر کی تہذیبی وحدت اور فکری ربط کو بھی مضبوطی ملے گی۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں