پاکستانی اردو ناول میں “تصور انسان” ایک اہم موضوع ہے جو ناولوں کی تخلیق اور ان کے فنی و فکری استعاروں میں واضح طور پر موجود ہے۔ اس میں انسان کی داخلی پیچیدگیاں، سماجی اور ثقافتی شناخت، اور فرد کی جدوجہد کو اہمیت دی جاتی ہے۔ پاکستانی اردو ناول نے مختلف سماجی، سیاسی، اور ثقافتی پس منظر میں انسان کی حالت کو بیان کیا ہے، جو آزادی، تقسیم، جنگوں اور داخلی تضادات جیسے عوامل سے متاثر ہو کر تبدیل ہوتا ہے۔ پاکستانی ناول نگاروں نے انسان کی شخصیت کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر متنوع طریقوں سے پیش کیا ہے۔ اس میں انسان کی آزادی کی خواہش، طبقاتی فرق، مذہبی تشویشات، اور تاریخی بوجھ جیسے عناصر کو دکھایا گیا ہے۔ مثلاً، شوکت صدیقی کے ناول “خاک اور خون” میں انسان کی داخلی کشمکش اور اس کے اجتماعی ذمہ داریوں کا تذکرہ ہے، جبکہ قرۃ العین حیدر کے ناول “آگ کا دریا” میں انسانی وجود اور اس کے تاریخی و ثقافتی سفر کی کہانی بیان کی گئی ہے، جو عہدوں اور جغرافیہ کی سرحدوں کو مٹا کر ایک وحدت کی طرف بڑھتی ہے۔