مرثیہ اردو ادب کی ایک اہم اور قدیم صنفِ شاعری ہے جو کسی فرد، حادثے یا سانحے پر رنج و غم کے اظہار کے لیے کہی جاتی ہے۔ مرثیہ بنیادی طور پر عربی زبان کے لفظ “رثا“ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے “کسی کی موت پر افسوس اور دکھ کا اظہار کرنا”۔ اردو میں مرثیہ کی ابتدا سادہ نوحہ نگاری سے ہوئی، جو وقت کے ساتھ ایک فنی اور فکری صنف میں ڈھل گئی۔
مرثیہ کی اقسام:
- رثا: کسی فردِ واحد کی وفات پر کہی جانے والی نظم، جو جذباتی اور پراثر انداز میں دکھ بیان کرتی ہے۔
- نوحہ: خاص طور پر کربلا کے شہداء پر ماتمی شاعری۔
- قصیدہ نما مرثیہ: جس میں تمہید، رخصت، میدانِ کربلا، شہادت اور بین جیسے اجزا شامل ہوں۔
- رزمیہ مرثیہ: جو جنگی کیفیت، شجاعت، اور مقابلے کی منظرکشی کرتا ہے۔
مرثیے کی ابتدا:
اردو مرثیے کا آغاز دکن میں ہوا جہاں سادہ اور مختصر رثائیاں کہی جاتی تھیں، لیکن شمالی ہند بالخصوص لکھنؤ میں اس صنف کو بامِ عروج حاصل ہوا۔ لکھنو کے شرفا، اہلِ تشیع، اور درباری ادیبوں نے اسے فقط ماتم کی صنف نہیں رہنے دیا بلکہ ایک ادبی، تہذیبی اور تاریخی صنف میں ڈھال دیا۔
مرثیہ اردو شاعری کی وہ صنف ہے جو نہ صرف غم و اندوہ کی گہرائی کو شعری پیکر میں ڈھالتی ہے بلکہ تاریخ، تہذیب اور اجتماعی شعور کا آئینہ بھی ہے۔ یہ صنف آج بھی اپنے مزاحمتی، مذہبی اور ثقافتی حوالوں کے ساتھ زندہ ہے اور عصری معنویت اختیار کر چکی ہے۔ مرثیہ صرف ماتم نہیں، ایک فکری احتجاج، تہذیبی بیانیہ، اور فنی معراج ہے جس نے اردو ادب کو عالمی سطح پر ایک منفرد شناخت دی۔
پاکستانی اردو مرثیہ نگاری ایک ایسی شعری روایت ہے جس نے نہ صرف مذہبی اور ثقافتی اقدار کو زندہ رکھا بلکہ سیاسی اور سماجی شعور کو بھی جلا بخشی۔ روایتی مرثیے کا بنیادی موضوع کربلا کے واقعات اور شہادت امام حسینؓ و اصحابِ حسین تھا، تاہم وقت کے ساتھ ساتھ اردو مرثیے نے نہ صرف صنفی اور اسلوبیاتی ارتقاء کا سفر طے کیا، بلکہ اس میں مزاحمتی بیانیہ بھی ابھرا۔ پاکستان میں اردو مرثیہ، محض ماتم یا مذہبی جذبات کے اظہار تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے ظلم، ناانصافی، استبداد، اور استعماری قوتوں کے خلاف ایک علامتی اور استعاراتی احتجاج کا روپ اختیار کیا۔
مزاحمتی شعور کی جڑیں کربلا کے بیانیے میں مضمر ہیں، جہاں باطل کے مقابل سچ، طاقت کے مقابل حق، اور ظلم کے مقابل قربانی کا تصور پیش کیا گیا۔ پاکستانی مرثیہ نگاروں نے اسی بیانیے کو بنیاد بنا کر معاصر سماجی و سیاسی پس منظر میں استعارتی انداز اپنایا۔ جس طرح میر انیس و دبیر نے مرثیے کو فنی بلندی عطا کی، اسی طرح پاکستان میں جمیل مظہری، سرور حسینی، اظہار نقوی، یا محمد باقر نقوی جیسے شعرا نے مرثیہ میں ایسے موضوعات شامل کیے جو وقت کے جبر، طبقاتی کشمکش، آمریت، اور معاشی ناہمواریوں پر گہرے طنز اور احتجاج کا رنگ لیے ہوئے ہیں۔
پاکستانی مرثیہ میں “شہادت“ ایک ایسا استعارہ ہے جو مختلف ادوار میں مختلف معنویت اختیار کرتا رہا ہے۔ سقوطِ ڈھاکا، مارشل لا، دہشت گردی، اقلیتوں پر مظالم، اور کشمیر و فلسطین جیسے مظلوم خطوں کی حمایت میں کہے گئے مرثیے صرف مذہبی نہیں بلکہ سیاسی مزاحمتکے بیانیے بن کر ابھرے ہیں۔ بعض شعرا نے کربلا کے کرداروں کو اس طور پیش کیا کہ وہ وقت کے ہر مظلوم کی علامت بن گئے، اور یزیدی قوتیں ہر وہ طاقت بن گئیں جو آزادیِ فکر، جمہوریت، اور انصاف کو کچلنے پر آمادہ رہیں۔
مزاحمتی مرثیہ نگاری میں زبان و بیان، تلمیحات، اور علامتوں کا خاص کردار رہا ہے۔ “خنجر”، “زنجیر”، “اسیر”، “پیاس”، “صحرا”، “آگ” جیسی علامات صرف ماضی کے بیان تک محدود نہیں رہیں بلکہ معاصر ظلم کے خلاف عوامی بیداری کا ذریعہ بنیں۔ اس میں مذہبی رنگکے ساتھ ساتھ سماجی انصاف اور سیاسی شعور کی آمیزش بھی دکھائی دیتی ہے۔ کئی مرثیے ایسے ہیں جن میں پاکستان کے سیاسی مظالم، اقلیتوں کے حقوق، یا جمہوری حقوق کی پامالی پر غیر مستقیم احتجاجی انداز اختیار کیا گیا۔
مزاحمتی مرثیے میں ایک اہم پہلو خواتین کے کرداروں کا ابھار بھی ہے، جیسے زینبؑ کا کردار، جو صرف صبر و ضبط کی علامت نہیں بلکہ خطابت، جراتِ اظہار، اور ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا پیکر بن کر سامنے آیا۔ اس کردار کو کئی پاکستانی مرثیہ نگاروں نے آزاد عورت، بولتی ہوئی مظلومیت، اور سچ کی محافظ کے طور پر پیش کیا ہے، جو جدید نسائی مزاحمت کی علامت بن جاتی ہے۔
پاکستان میں اردو مرثیہ نے اس مزاحمتی روایت کو اس وقت بھی جاری رکھا جب اظہار پر پہرے لگے، اور ادب کو سیاست سے علیحدہ رکھنے کی کوشش کی گئی۔ مرثیہ چونکہ روایتی طور پر مذہبی نوعیت کا حامل تھا، اس لیے اس میں چھپا ہوا سیاسی احتجاج اکثر اشارے، تلمیح، یا استعاراتی زبان کے ذریعے پیش کیا جاتا رہا، اور یہی اس کی اصل طاقت رہی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ پاکستانی اردو مرثیہ صرف ماتمی صنف نہیں بلکہ ایک ایسا تخلیقی وسیلہ بن چکا ہے جو مزاحمت، شعور، سوال، بغاوت، انصاف اور حق گوئی کا پیغام لیے ہوئے ہے۔ اس صنفِ ادب میں جس طرح کربلا کی روح کو محفوظ رکھا گیا ہے، اسی طرح وقت کے ہر باطل کے خلاف ایک فکری مزاحمت کی شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ مرثیہ آج بھی ظلم کے خلاف سب سے مستحکم اور دیرپا تخلیقی احتجاج کا حوالہ ہے۔