Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

پاکستانی اردو افسانے میں  منفی کرداروں کا تحقیقی وتنقیدی جائزہ

پاکستانی اردو افسانہ سماجی مسائل اور تہذیبی رویوں کا آئینہ دار رہا ہے، اور خواتین کے مسائل اس کا ایک اہم موضوع رہے ہیں۔ آغاز سے لے کر 2010 تک کے اردو افسانے میں عورت کی سماجی، نفسیاتی اور اقتصادی حیثیت پر گہری روشنی ڈالی گئی ہے۔ ابتدائی دور میں عصمت چغتائی، کرشن چندر اور راجندر سنگھ بیدی جیسے ادیبوں نے عورت کے جذبات، گھریلو مسائل اور سماجی جبر کو موضوع بنایا، جب کہ پاکستان کے قیام کے بعد ممتاز مفتی، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ، انتظار حسین، اور مسعود مفتی نے عورت کی شناخت، اس کے حقوق اور خاندان و معاشرے میں اس کے کردار پر کہانیاں لکھیں۔ 1970 کے بعد، کشور ناہید، زاہدہ حنا، نور الہدیٰ شاہ، اور فہمیدہ ریاض جیسے افسانہ نگاروں نے عورت کے جنسی استحصال، گھریلو تشدد، ملازمت کے مسائل اور جدید عورت کے نفسیاتی انتشار کو اپنا موضوع بنایا۔ 1990 اور 2000 کی دہائی میں محمد حمید شاہد، نیلم احمد بشیر، اور سعدیہ خالد جیسے لکھاریوں نے عورت کے ساتھ ہونے والی صنفی تفریق، غیرت کے نام پر قتل، تیزاب گردی، اور دیگر سماجی برائیوں کو اجاگر کیا۔ ان افسانوں میں عورت کو ایک محکوم کردار کے بجائے ایک باشعور اور مزاحمتی کردار کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے، جو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے۔ یہ تجزیاتی مطالعہ ثابت کرتا ہے کہ 2010 تک کا اردو افسانہ خواتین کے مسائل کو نہایت گہرائی، حقیقت پسندی اور فکری بیداری کے ساتھ پیش کرتا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ادب نے عورت کے مسائل کی عکاسی میں ایک مؤثر سماجی کردار ادا کیا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں