Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

پاکستانی اردو افسانے میں ریاستی جبر(1980 تاحال) تحقیقی وتجزیاتی مطالعہ

پاکستانی اردو افسانے میں ریاستی جبر کے موضوع کو 1980 کے بعد خاص اہمیت حاصل ہوئی، جس میں سیاسی، سماجی، اور انسانی حقوق کی پامالیوں کو موضوع بنایا گیا۔ یہ دور ضیاء الحق کی آمریت کا تھا، جس نے پاکستانی معاشرے میں نہ صرف سیاسی دباؤ اور سینسرشپ کو فروغ دیا بلکہ سماجی آزادیوں پر بھی پابندیاں عائد کیں۔ اردو افسانہ نگاروں نے اس دور کے مظالم، ریاستی مشینری کی استحصالی حکمت عملیوں، اور عوامی جذبات کی ترجمانی کو اپنی کہانیوں کے ذریعے زندہ رکھا۔ انتظار حسین، منیر نیازی، اور محمد حنیف جیسے افسانہ نگاروں نے ان کہانیوں میں جبر کی مختلف صورتوں کو اجاگر کیا، جن میں فرد کی آزادی پر قدغن، معاشرتی گھٹن، اور ناانصافیوں کے خلاف عوامی جدوجہد شامل ہیں۔ افسانہ نگاروں نے ریاستی تشدد کو صرف سیاسی ظلم و جبر کے تناظر میں نہیں بلکہ اس کے اثرات کو نفسیاتی، سماجی، اور ثقافتی پہلوؤں سے بھی دکھایا ہے۔ خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں، جبری گمشدگیاں، اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اردو افسانوں کے اہم موضوعات رہے۔ ان افسانوں میں علامتی انداز اور استعاروں کے ذریعے ریاستی جبر کو نہایت باریک بینی سے پیش کیا گیا، جو قاری کو ان کہانیوں کے بظاہر سادہ لیکن گہرے سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہ ادب نہ صرف ایک عہد کی عکاسی کرتا ہے بلکہ مزاحمت کی علامت بھی بن گیا ہے، جو آج کے اردو افسانے کو عالمی تناظر میں مزید معتبر بناتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں