کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

نیر مسعود کے افسانوں کا تنقیدی و فکری جائزہ

نیر مسعود اردو ادب کے ممتاز افسانہ نگار، مترجم، محقق، ادبی نقاد اور لغت نویس تھے، جنہیں اردو افسانے میں ایک منفرد اور علامتی اندازِ بیان کے حوالے سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ وہ 16 نومبر 1936 کو لکھنؤ، بھارت میں پیدا ہوئے اور 24 جولائی 2017 کو اسی شہر میں وفات پا گئے۔ ان کے والد مسعود حسن رضوی ادیب، نقاد اور ماہرِ فارسی تھے، جن کا علمی ذوق نیر مسعود کی شخصیت پر گہرا اثر ڈال گیا۔ نیر مسعود نے فارسی ادب میں ایم اے کیا اور بعدازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ لکھنؤ یونیورسٹی میں اردو اور فارسی کے استاد بھی رہے۔

نیر مسعود کا افسانوی اسلوب بے حد گہرا، علامتی، خواب ناک (dream-like) اور تہہ دار ہوتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ماضی کی گم گشتہ دنیا، شکستہ عمارتیں، پرانی تہذیبیں، اجڑے ہوئے کردار، اور وقت کے ٹھہراؤ کی کیفیت نمایاں ہوتی ہے۔ ان کا بیانیہ دھیمے انداز میں قاری کو ایک ایسے غیر مرئی جہان میں لے جاتا ہے جہاں خواب، یادداشت، تاریخ اور حسرتیں ایک دوسرے میں مدغم ہو جاتی ہیں۔ ان کی تحریریں علامتی بھی ہیں اور ادبی جمالیات سے بھرپور بھی، اس لیے انہیں اردو کا بورخیس (Borges) یا کافکا بھی کہا جاتا ہے۔

ان کے مشہور افسانوی مجموعوں میں “سیمیا”, “طاؤس چمن کی مینا”, “اجنبی بازو”, “اترنے والا ایک شخص” اور “گنجفہ” شامل ہیں۔ نیر مسعود نے مرزا غالب، امیر خسرو، انیس، دبیر اور ولی دکنی پر تحقیقی مضامین بھی لکھے، اور فارسی و اردو لغات پر بھی کام کیا، جن میں ان کا کام “لغاتِ کشوری” بہت اہمیت رکھتا ہے۔ وہ ممتاز مترجم بھی تھے اور فارسی سے اردو میں کئی نایاب تحریریں منتقل کیں۔ نیر مسعود کو ان کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں بھارت سرکار نے پدم شری جیسے اہم اعزاز سے بھی نوازا۔

نیر مسعود کا اسلوب روایتی افسانے سے ہٹ کر ہے، ان کے ہاں پلاٹ کی بجائے فضا اہم ہے، کردار کی بجائے یادداشت اور احساسات مرکزی ہوتے ہیں، اور زبان میں ایک تہذیبی شائستگی اور کلاسیکی حسن موجود ہوتا ہے۔ اردو افسانے کی تاریخ میں نیر مسعود کا مقام ہمیشہ ایک ایسے فکری اور فنی استاد کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنہوں نے اردو کہانی کو معنی، رمز، اور فکری تہہ داری کی نئی بلندیوں سے روشناس کرایا۔

نیر مسعود اردو افسانے کے ان منفرد اور گہرے فنکاروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے بیسویں صدی کے آخری اور اکیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں اردو افسانے کو ایک نئی معنویت، تہذیبی شعور، اور اسلوبی وقار بخشا۔ ان کے افسانے محض بیانیہ کہانیاں نہیں بلکہ تہہ در تہہ معانی، اساطیری اشارے، لسانی نزاکت، اور تاریخی شعور کی ایسی لطیف آمیزش سے مزین ہیں کہ وہ اردو افسانے میں ایک علیحدہ دبستان کے نمائندہ بن گئے ہیں۔ نیر مسعود کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ لیتے وقت چند اہم نکات سامنے آتے ہیں: اسلوب کی انفرادیت، ماضی کی بازیافت، تہذیبی حس، علامتی بیانیہ، نفسیاتی عمق، اور ساختیاتی جمالیات۔

نیر مسعود کے افسانوں کا پہلا نمایاں پہلو ان کا اسلوب ہے جو کلاسیکی اردو نثر، فارسی آمیز تراکیب، اور روایت سے گندھی ہوئی زبان کا عکاس ہے۔ ان کے ہاں زبان محض وسیلہ اظہار نہیں بلکہ کردار، ماحول اور فضا کی تشکیل کا بنیادی ذریعہ ہے۔ وہ قدیم لکھنوی تہذیب، اس کے طرزِ بیان، مکالماتی چال، اور محاوراتی ساخت کو اپنی تحریر میں اس انداز سے سمو دیتے ہیں کہ قاری ماضی کی گلیوں میں سانس لیتا محسوس کرتا ہے۔ ان کے افسانوں میں کسی عہد کی بازیافت صرف تاریخی یا نوستالجیا کے تناظر میں نہیں بلکہ ایک تہذیبی شکست، وقت کی دھند، اور زوال کے شعور کے ساتھ نمایاں ہوتی ہے۔

موضوعاتی سطح پر نیر مسعود کے افسانے تاریخ، تہذیب، فن، علم، خواب، ماضی کی گم گشتہ دنیا، اور انسانی نفسیات کے گہرے مشاہدے پر مبنی ہوتے ہیں۔ ان کے کئی افسانے مثلاً نمی گرما، طاؤس چمن کی مینا، شیشے کا گھونسلہ، سمتوں کا بند دروازہ، ایک ایسی دنیا کا در کھولتے ہیں جو اپنی ظاہری سکوت میں بھی تہذیبی انتشار، داخلی خلا، اور انسانی اقدار کے زوال کا آئینہ دار ہے۔ ان کے کردار اکثر تنہائی کے مارے ہوئے، کسی یاد، کسی خواہش یا کسی المیے کی گرفت میں ہوتے ہیں، اور یہ کیفیت محض ذاتی نہیں بلکہ تہذیبی تناظر میں وسیع تر معنویت رکھتی ہے۔

نیر مسعود کا بیانیہ اکثر مبہم، گریز پا اور غیر قطعی ہوتا ہے۔ وہ قاری کو مکمل کہانی نہیں دیتے بلکہ ایسا فضا نامہ تشکیل دیتے ہیں جس میں معنی قاری خود اخذ کرتا ہے۔ ان کا علامتی نظام گہرائی لیے ہوتا ہے: طاؤس، چمن، دروازے، شیشے، پرندے، یا خواب – یہ سب وہ استعاراتی عناصر ہیں جو ایک شکست خوردہ شعور، بکھری ہوئی شناخت اور زوال پذیر روایت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے صرف افسانے نہیں بلکہ تہذیبی اشاراتیہ بن جاتے ہیں۔

تنقیدی سطح پر نیر مسعود کے فن کو مابعد نوآبادیاتی، ساختیاتی، اور نفسیاتی زاویوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ مابعد نوآبادیاتی تناظر میں ان کا افسانوی بیانیہ ایک ایسی تہذیب کی گم شدگی کا نوحہ ہے جو استعماری زخموں، داخلی بے یقینی، اور وقت کی غیر مرئی ضربوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ ساختیاتی تنقید کے حوالے سے ان کا اسلوب خود ایک گرامر تشکیل دیتا ہے – جہاں ہر علامت، ہر خامشی، ہر جملہ ایک وسیع معنوی نظام سے جڑا ہوتا ہے۔ نفسیاتی طور پر ان کے کردار انسانی لاشعور، خوف، خواہش اور شکست کی وہ صورتیں دکھاتے ہیں جو قاری کے اپنے اندر کے خلا سے جا ملتی ہیں۔

نتیجتاً نیر مسعود کے افسانے اردو ادب کی روایت میں ایک ایسا گراں قدر اضافہ ہیں جو محض ادب برائے تفریح یا سماجیات کی سادہ تصویر کشی نہیں بلکہ ایک تہذیبی خود کلامی اور فکری تجزیے کا ادبی پیرایہ ہیں۔ ان کا کام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ افسانہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک جہت ہے، جس میں زبان، تاریخ، ثقافت اور انسانی باطن ہمہ وقت مکالمہ کرتے ہیں۔ نیر مسعود اسی مکالمے کو قرطاس پر اس نزاکت سے منتقل کرتے ہیں کہ ان کے افسانے پڑھنے والا قاری وقت، تہذیب اور خود اپنی ذات کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتا ہے۔ یہی ان کی عظمت اور انفرادیت کا اصل راز ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں