نواب مصطفی خان شیفتہ اردو ادب کی تاریخ میں ایک نہایت معتبر اور ہمہ جہت شخصیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ وہ محض ایک شاعر ہی نہیں بلکہ ایک نقاد، مصلح اور سرپرستِ ادب بھی تھے۔ ان کا دور اردو شعری روایت کے ارتقائی سفر کا ایک نہایت نازک مرحلہ تھا جب کلاسیکی روایت اپنے عروج کے بعد زوال کی طرف بڑھ رہی تھی اور جدید رجحانات بھی آہستہ آہستہ اپنا وجود منوا رہے تھے۔ شیفتہ نے اس صورتِ حال میں ایک ایسا کردار ادا کیا جس نے نہ صرف ان کی شاعری کو نمایاں کیا بلکہ اردو ادب کی سمت متعین کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف روایت کے پاسدار تھے اور دوسری طرف تجدید کے بھی قائل۔
شیفتہ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ان کی شاعری ہے۔ انہوں نے غزل اور قصیدہ دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی، لیکن ان کی اصل پہچان غزل کے ذریعے ہوئی۔ ان کی غزل میں سادگی، شائستگی اور پرکاری کے عناصر نمایاں ہیں۔ وہ مصنوعی تصنع اور غیر ضروری مبالغہ آرائی سے گریز کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں جذبے کی سچائی اور اظہار کی صفائی ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میر اور غالب کے دور کے باوجود اپنی منفرد پہچان قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی شاعری میں حسن و عشق کے روایتی مضامین کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور اصلاحی رجحانات بھی پائے جاتے ہیں جو انہیں اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتے ہیں۔
قصیدہ نگاری کے میدان میں بھی شیفتہ نے اپنے کلام سے ایک الگ شناخت قائم کی۔ اگرچہ قصیدہ زیادہ تر مدح اور تعریف کے لیے استعمال ہوتا تھا لیکن شیفتہ نے اس میں بھی شائستگی اور فن کی نزاکت کو نمایاں رکھا۔ ان کے قصائد محض تعریف و توصیف تک محدود نہیں بلکہ اس میں ایک طرح کی فکری سنجیدگی اور تہذیبی شعور بھی شامل ہے۔ ان کی قصیدہ نگاری کو اس عہد کے ذوق اور اسلوب کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔
تحقیقی سطح پر شیفتہ کی سب سے بڑی اہمیت ان کی تنقیدی بصیرت ہے۔ وہ غالب کے معاصر اور ان کے نہایت قریبی دوست تھے۔ ان کے خطوط اور یادداشتیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہیں شعری محاسن اور اسلوبی باریکیوں کی گہری سمجھ تھی۔ انہوں نے شاعری کے بارے میں جو آرا دیں وہ نہ صرف ان کے ذاتی ذوق کا آئینہ ہیں بلکہ اردو تنقید کی ابتدائی تشکیل میں بھی سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کی تنقیدی آرا سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محض مداح یا محض نقاد نہیں تھے بلکہ ایک غیر جانبدار اور بصیرت افروز نقطۂ نظر رکھتے تھے۔
تنقیدی حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ شیفتہ نے شاعری میں زبان کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ وہ صاف، سادہ اور شستہ زبان کے قائل تھے۔ ان کے نزدیک شاعری کا اصل حسن مبالغے یا لفظی پیچیدگیوں میں نہیں بلکہ سادہ اور پراثر اظہار میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ایک طرح کی شفافیت اور سلاست ملتی ہے جو قاری کو براہِ راست متاثر کرتی ہے۔
نواب مصطفی خان شیفتہ کا ایک اور کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ادب کی سرپرستی کی۔ ان کے دربار اور محفلیں اس دور کے بڑے شعرا اور ادبا کا مرکز تھیں۔ غالب، مومن اور دیگر بڑے شعرا ان کے قریب رہے۔ وہ نہ صرف شعرا کی حوصلہ افزائی کرتے تھے بلکہ ان کی اصلاح بھی کرتے تھے۔ اس طرح انہوں نے اردو شاعری کے ایک پورے دور کی ادبی فضا کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تنقیدی مطالعے میں ان کی بعض کمزوریاں بھی سامنے آتی ہیں۔ ان کی شاعری بعض اوقات محض روایتی مضامین تک محدود رہتی ہے اور اس میں وہ جدت یا انفرادیت کم ملتی ہے جو میر یا غالب کے ہاں دکھائی دیتی ہے۔ ان کے قصائد بھی بعض اوقات محض رسمی تعریف و توصیف پر اکتفا کرتے ہیں۔ تاہم ان کے عہد کی ادبی فضا کو دیکھتے ہوئے یہ کمزوریاں زیادہ نمایاں نہیں ہوتیں کیونکہ وہ اپنے اسلوب اور شائستگی کے باعث پھر بھی ایک منفرد مقام پر نظر آتے ہیں۔
مجموعی طور پر نواب مصطفی خان شیفتہ کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اردو ادب کی ایک ہمہ گیر شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے غزل اور قصیدہ کی روایت کو سنوارا، اپنی تنقیدی آرا سے اردو تنقید کی بنیادوں کو مضبوط کیا، اور اپنی سرپرستی کے ذریعے ایک پورے عہد کی ادبی فضا کو جلا بخشی۔ وہ اپنے دور کے شعری منظرنامے میں ایک ایسے ادیب اور شاعر تھے جن کی حیثیت محض تخلیق کار کی نہیں بلکہ ایک رہنما اور مصلح کی بھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں اردو ادب کی تاریخ میں ایک اہم سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔