نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی ایک اہم فکری اور ادبی موضوع ہے، جس کے تحت اقبال کے کلام اور ان کے فکری تصورات کو اس دور کی سیاسی، سماجی اور فکری تناظر میں پرکھا جاتا ہے۔ برطانوی سامراج کے زیرِ تسلط برصغیر میں جب فکری اور نظریاتی تحریکیں پروان چڑھ رہی تھیں، علامہ اقبال نے اپنی شاعری اور فلسفیانہ افکار کے ذریعے ایک نئی فکری روایت کو جنم دیا۔ نوآبادیاتی پس منظر میں اقبال شناسی کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ ان کے کلام کو ایک مزاحمتی بیانیے کے طور پر دیکھا گیا، جو غلامی، استحصال، اور مغربی سامراجیت کے خلاف ایک فکری مزاحمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ ان کے نظریۂ خودی نے غلام ہندوستان کے باشندوں میں اپنی پہچان اور خودداری کا احساس پیدا کیا، جس کے باعث انہیں ایک انقلابی شاعر بھی سمجھا گیا۔ اس دور میں اقبال پر ہونے والی تنقید میں دو بڑے زاویے نمایاں نظر آتے ہیں: ایک طرف انہیں جدید اسلامی فکر کا علمبردار قرار دیا گیا، جبکہ دوسری طرف بعض مستشرقین اور سامراجی ذہن رکھنے والے ناقدین نے انہیں ایک خیالی مفکر کے طور پر پیش کیا، جو عملی سیاست سے دور تھے۔ تاہم، اقبال کے خطبات اور شاعری کا عمیق مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ انہوں نے محض فلسفیانہ مباحث تک خود کو محدود نہیں رکھا، بلکہ عملی طور پر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ تہذیبی اور سیاسی تشخص کی بنیاد رکھی، جو بعد میں تحریکِ پاکستان کی نظریاتی بنیاد بنا۔ نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے فکر پر مغربی فلسفے، اسلامی تصوف، اور مشرقی روایت کے اثرات نمایاں تھے، جنہیں برطانوی عہد کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ایک فکری ردِعمل اور ثقافتی بقا کی کوشش کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اس لیے نوآبادیاتی عہد میں اقبال شناسی کا مطالعہ نہ صرف برصغیر کے سیاسی و فکری حالات کی تفہیم میں مدد دیتا ہے بلکہ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اقبال کی شاعری اور نظریات نے آزادی، خودمختاری اور اسلامی احیا کی تحریک میں ایک بنیادی کردار ادا کیا۔