ناول “دروازہ کھلتا ہے” میں مابعد الطبیعیاتی عناصر کا جائزہ لیتے ہوئے یہ واضح ہوتا ہے کہ مصنف نے حقیقت سے ماورا موضوعات کو علامتی اور استعاراتی انداز میں پیش کیا ہے۔ اس ناول میں وقت، تقدیر، روحانی تجربات اور نفسیاتی کشمکش کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے کہ قاری حقیقت اور تجرید کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔ مصنف نے کرداروں کی داخلی کیفیات اور ان کے ذہنی تجربات کو فوق الفطری ماحول میں سمو کر ایک منفرد بیانیہ تخلیق کیا ہے۔ مابعد الطبیعیاتی مباحث جیسے کہ وجودیت، ماورائیت، اور حقیقت کے پس پردہ عوامل کو فلسفیانہ انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس میں خواب، دیو مالائی عناصر، غیبی اشارے اور روحانی واردات جیسے موضوعات کو نہایت مہارت سے بُنا گیا ہے، جو قاری کو نہ صرف حیرت میں مبتلا کرتے ہیں بلکہ اسے حقیقت اور سراب کے فرق پر بھی غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ ناول کی ساخت، اسلوب، اور کرداروں کے فکری مکالمے اس کے مابعد الطبیعیاتی رجحانات کو مزید واضح کرتے ہیں، جو اسے اردو فکشن میں ایک نمایاں حیثیت عطا کرتے ہیں۔