ناصر عباس نیر کے انشائیے اردو نثر میں ایک منفرد اور فکری جہت کے حامل ہیں، جن میں جدید فکری رویوں، سماجی، تہذیبی اور علمی مسائل کو نہایت منفرد اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ ان کے انشائیوں کا موضوعاتی مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وہ مابعد جدیدیت، نوآبادیاتی ذہنیت، زبان و ادب کے نظریاتی مباحث اور ثقافتی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کے انشائیے محض تفریحی نثر نہیں، بلکہ فکری سوالات اٹھاتے اور قاری کو غور و فکر پر مائل کرتے ہیں۔ اسلوبی اعتبار سے ناصر عباس نیر کے انشائیے مکالماتی، استعاراتی اور بعض اوقات طنزیہ و مزاحیہ رنگ لیے ہوتے ہیں، جس سے ان کا طرزِ اظہار زیادہ جاندار اور اثر انگیز بن جاتا ہے۔ وہ سادہ مگر بلیغ زبان استعمال کرتے ہیں، جس میں علمی گہرائی بھی شامل ہوتی ہے، اور وہ متن کو تجریدی اور علامتی سطح پر لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے انشائیے اردو انشائیہ نگاری کی روایتی طرز سے ہٹ کر ایک جدید فکری رویے کی نمائندگی کرتے ہیں، جو اردو نثر میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی حیثیت رکھتے ہیں۔