کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

منٹو کے افسانوں میں نفسیاتی اور جنسیاتی پہلو کا مطالعہ

منٹو کے افسانے اردو ادب میں انسان کی باطنی کیفیات، نفسیاتی الجھنوں اور جنسی محرومیوں کے جرات مندانہ اظہار کے حوالے سے اپنی مثال آپ ہیں۔ سعادت حسن منٹو نے اپنے عہد کے انسان کو نہ صرف اس کے ظاہری رویوں کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی بلکہ اس کے اندر چھپی ہوئی نفسیاتی و جنسی پیچیدگیوں کو بھی بے نقاب کیا۔ وہ سماج کی سطحی اخلاقیات سے آگے بڑھ کر انسانی جبلّت، خواہش، خوف، جرم اور گناہ کے اس لاشعوری حصے تک پہنچتے ہیں جسے عام طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ ان کے نزدیک انسان نیکی اور بدی، محبت اور نفرت، ہوس اور قربانی کا مجموعہ ہے، اور ادب کا کام ان تضادات کو بے نقاب کرنا ہے، نہ کہ ان پر پردہ ڈالنا۔

منٹو کے افسانوں میں نفسیاتی پہلو دراصل ان کے کرداروں کی داخلی کشمکش سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے کردار اکثر سماجی دباؤ، اخلاقی تضاد، یا ذاتی محرومی کے زیرِ اثر نفسیاتی بگاڑ کا شکار نظر آتے ہیں۔ مثلاً افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں پاگل خانے کا پس منظر محض علامتی نہیں بلکہ تقسیم کے بعد انسان کے ذہنی انتشار کا استعارہ ہے۔ بشن سنگھ کی پاگل پن میں ایک گہرا شعور پوشیدہ ہے۔ وہ پاگل کہلاتا ہے مگر دراصل پورے سیاسی اور اخلاقی نظام کی پاگل پن پر سوال اٹھاتا ہے۔ اس کردار کے ذریعے منٹو نے دکھایا کہ انسان کا ذہن جب غیر یقینی اور ظالمانہ حالات سے دوچار ہوتا ہے تو وہ حقیقت اور فریب کے درمیان الجھ کر اپنی شناخت کھو بیٹھتا ہے۔ یہ افسانہ سیاسی تقسیم سے زیادہ ذہنی تقسیم کا بیانیہ ہے۔

منٹو کے کردار عام طور پر وہ لوگ ہیں جنہیں سماج نے نظرانداز کیا — طوائف، مجرم، یا محروم طبقے کے افراد۔ مگر منٹو ان کرداروں کو محض سماجی مظلوم کے طور پر نہیں بلکہ نفسیاتی گہرائی رکھنے والے انسان کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کے اندر بھی احساس، محبت، درد اور عزتِ نفس کی خواہش موجود ہے۔ افسانہ ٹھنڈا گوشت میں انسانی جبلّت کے حیوانی رخ کے ساتھ احساسِ گناہ اور ضمیر کی خلش کو جس نفسیاتی شدت سے بیان کیا گیا ہے، وہ اردو ادب میں کم نظیر ہے۔ ایشر سنگھ کا کردار ابتدا میں ایک حیوانی قوت کا مظہر ہے مگر بعد میں وہ اپنے جرم کے بوجھ تلے ٹوٹ جاتا ہے۔ یہاں منٹو محض جسمانی عمل بیان نہیں کرتے بلکہ اس کے بعد پیدا ہونے والے ذہنی عذاب اور احساسِ گناہ کی گہرائی دکھاتے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں منٹو کے فن میں نفسیات اور اخلاقیات کا ملاپ دکھائی دیتا ہے۔

جنسیاتی پہلو منٹو کی کہانیوں میں اس لیے نمایاں ہے کہ وہ جنسی تجربات کو انسان کی بنیادی حقیقت مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک جنسی جبلّت انسان کی فطرت کا لازمی جز ہے جسے سماج نے منافقانہ طور پر دبا دیا ہے۔ منٹو نے اسی دباؤ اور اس کے نتائج کو اپنے افسانوں میں موضوع بنایا۔ ان کے مشہور افسانے بو، کھول دو، ہتک اور کالی شلوار میں عورت کی جنسیت کو نہ تو فحش انداز میں پیش کیا گیا ہے اور نہ محض جسمانی لذت کے اظہار کے طور پر، بلکہ بطور نفسیاتی اور سماجی ردِعمل کے۔

افسانہ بو میں جنسی کشش کا تعلق محض جسمانی حسن سے نہیں بلکہ لاشعوری خواہش سے جوڑا گیا ہے۔ ایک شادی شدہ مرد جب ایک مزدورنی کی بو سے متاثر ہوتا ہے تو یہ دراصل طبقاتی اور نفسیاتی سطح پر اس کے دبا ہوا لاشعور کا اظہار ہے۔ یہاں “بو” صرف جسمانی مہک نہیں بلکہ اس فطری جبلّت کی علامت ہے جو سماجی آداب کے پردے میں چھپی ہوئی ہے۔ اسی طرح ہتک میں طوائف سوگندھی کا کردار عورت کی نفسیاتی خودشناسی کی علامت بن جاتا ہے۔ وہ جسم بیچتی ہے مگر اپنی “ہتک” سے واقف ہے۔ وہ جب ایک کم درجے کے گاہک کی بے حسی پر غصہ کرتی ہے تو دراصل اپنے وجود کی توہین پر ردِعمل ظاہر کر رہی ہوتی ہے۔ یہ غصہ اس کے اندر کے انسان کا اعلان ہے جو عزت چاہتا ہے، نہ کہ صرف جسمانی خواہش کی تسکین۔

منٹو نے عورت کے جنسی وجود کو ایک نفسیاتی تجربہ کے طور پر پیش کیا۔ ان کے ہاں عورت نہ مظلوم ہے، نہ گناہ گار؛ وہ محض انسان ہے جو سماج کے تضادات کے بیچ اپنی حقیقت تلاش کر رہی ہے۔ افسانہ کالی شلوار میں طوائف سوگندھی کے احساسات اور اس کے معمولی کپڑے کے ساتھ جڑے ہوئے نفسیاتی ردعمل کو منٹو نے جس باریکی سے دکھایا، وہ انسانی نفسیات کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں جنس جسمانی خواہش نہیں بلکہ شناخت، خود اعتمادی اور احترامِ ذات کی علامت بن جاتی ہے۔

منٹو کے افسانوں میں جنسی موضوعات محض شہوانی نہیں بلکہ علامتی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ جنس کو زندگی کی حرکی قوت سمجھتے ہیں جو دبی ہوئی حالت میں بگاڑ پیدا کرتی ہے اور اظہار کی صورت میں انسان کو آزاد کرتی ہے۔ ان کے نزدیک انسانی اخلاقیات کا اصل امتحان یہی ہے کہ وہ اپنی جبلّت کو کس حد تک سمجھتا اور قابو میں رکھتا ہے۔ منٹو کے کردار جب اس توازن سے محروم ہوتے ہیں تو وہ یا تو پاگل ہو جاتے ہیں، یا خود سے نفرت کرنے لگتے ہیں، جیسا کہ ٹھنڈا گوشت اور کھول دو میں دکھایا گیا ہے۔

نفسیاتی سطح پر منٹو کے فن کی بنیاد سگمنڈ فرائیڈ کے نظریۂ لاشعور سے متاثر نظر آتی ہے۔ ان کے کرداروں کے اعمال اکثر شعوری نہیں بلکہ لاشعوری محرکات کے زیرِ اثر ہوتے ہیں۔ منٹو نے ان دبی ہوئی خواہشات، احساسِ جرم اور خوف کو اپنے کرداروں کے رویوں سے ظاہر کیا۔ مگر انہوں نے فرائیڈ کے نظریے کو محض نظریاتی سطح پر نہیں برتا بلکہ اسے مقامی، تہذیبی اور انسانی تناظر میں ڈھال دیا۔

منٹو کے یہاں جنسیات اور نفسیات الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی انسانی تجربے کے دو رخ ہیں۔ وہ دکھاتے ہیں کہ جنسی خواہش کا انکار یا جبر انسان کو نفسیاتی بگاڑ کی طرف لے جاتا ہے، اور اس کا بے لگام اظہار اخلاقی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ ان کے نزدیک ادب کا کام کسی ایک کو درست یا غلط قرار دینا نہیں بلکہ انسان کو اس کی مکمل سچائی کے ساتھ دکھانا ہے۔ یہی وہ جرات اور سچائی ہے جس نے منٹو کو اردو افسانے میں ایک منفرد مقام عطا کیا۔ ان کے افسانے انسان کی باطنی دنیا کے وہ آئینے ہیں جن میں خوف، محبت، ہوس، احساسِ جرم اور انسانیت ایک دوسرے میں تحلیل ہو کر ایک ابدی سچائی بن جاتے ہیں۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں