Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

منطق الطیر میں  صوفیانہ عناصر کا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ

فرید الدین عطار کی مثنوی منطق الطیر صوفیانہ عناصر سے بھرپور ہے، جس میں روحانی ارتقا، وحدت الوجود، نفس کی پاکیزگی اور حقیقت کی جستجو جیسے تصورات کو نہایت خوبصورت استعاراتی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ مثنوی پرندوں کے ایک تمثیلی سفر پر مبنی ہے، جو اپنے بادشاہ سیمرغ کی تلاش میں نکلتے ہیں، اور یہ سفر دراصل صوفیانہ ریاضت و سلوک کی علامت ہے۔ مختلف پرندے انسانی نفس کی مختلف کمزوریوں اور رکاوٹوں کی نمائندگی کرتے ہیں، جو روحانی ترقی میں حائل ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ، سات وادیاں جیسے طلب، عشق، معرفت، استغنا، توحید، حیرت اور فنا، تصوف کے بنیادی مراحل کی عکاسی کرتی ہیں۔ تحقیقی و تنقیدی مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ عطار نے فارسی صوفیانہ ادب میں نہ صرف ایک منفرد اسلوب متعارف کرایا بلکہ اپنے علامتی طرزِ بیان سے صوفیانہ فلسفے کو عام فہم انداز میں بھی پیش کیا، جو بعد میں مولانا روم اور دیگر صوفی شعراء کے ہاں مزید ترقی یافتہ صورت میں نظر آتا ہے۔ ان کے اسلوب میں رمزیت، تمثیل اور استعارات کا گہرا استعمال پایا جاتا ہے، جو قاری کو بیک وقت عقلی اور روحانی سطح پر متأثر کرتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں