منتخب اردو ناولوں میں مارکسی نظریہ بیگانگی کا مطالعہ ادبی تحقیق کا ایک اہم شعبہ ہے، جو سرمایہ دارانہ سماج میں فرد کی اجنبیت، محنت کی علیحدگی اور سماجی عدم مساوات کے تصورات کو دریافت کرتا ہے۔ مارکس کے مطابق، سرمایہ دارانہ نظام میں انسان اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بیگانہ ہو جاتا ہے، اور یہی تصور اردو ناولوں میں مختلف شکلوں میں نظر آتا ہے۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ادیبوں نے خاص طور پر مزدوروں، کسانوں اور پسے ہوئے طبقات کے دکھوں کو اپنی تحریروں میں اجاگر کیا۔ ناولوں میں بیگانگی کی صورتیں طبقاتی جدوجہد، عدم تحفظ، داخلی کشمکش اور سماجی جبر کے طور پر نمایاں ہوتی ہیں۔ کئی ناول کرداروں کے ذریعے ان پیچیدگیوں کو نمایاں کرتے ہیں، جہاں فرد ایک ایسے معاشرے میں اپنی شناخت کھو دیتا ہے جو اس کے جذبات اور ضروریات کا استحصال کرتا ہے۔ اس مطالعے میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر جیسے ادیبوں کے ناول اہم حوالہ جات کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں، جو نہ صرف بیگانگی کے تصور کو فکری سطح پر اجاگر کرتے ہیں بلکہ ان کے اثرات کو بھی نثر میں سمو کر پیش کرتے ہیں۔