Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

معاصر اردو ناول میں  افسر شاہی کی قباحتوں کی  عکاسی کا مابعد نوآبادیاتی  مطالعہ

معاصر اردو ناول میں افسر شاہی کی قباحتوں کی عکاسی کا مابعد نوآبادیاتی مطالعہ ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ کس طرح نوآبادیاتی نظام کے اثرات نے افسر شاہی کے ادارے کو تشکیل دیا اور اس کے بعد کی پاکستانی سیاست اور معاشرت میں اس کے اثرات کی نوعیت کیسی رہی۔ مابعد نوآبادیاتی دور میں، جہاں افسر شاہی کے نمائندگان نے طاقت اور اختیار کے مختلف طریقوں سے عوامی زندگی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی، وہیں ان کے کرپٹ، خودغرض اور عوامی مفاد سے بے نیاز رویے نے ان اداروں کی اخلاقی پستی کو اجاگر کیا۔ اردو ناولوں میں یہ قباحتیں افسر شاہی کی بدعنوانی، طبقاتی تفاوت، اور حکومتی مشینری کی ناانصافیوں کی صورت میں دکھائی دیتی ہیں، جنہیں عام طور پر کہانیوں میں ایک منفی اور استحصالی طاقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ مابعد نوآبادیاتی نظریہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ افسر شاہی کی ان قباحتوں کو ایک نوآبادیاتی ورثے کے طور پر دیکھا جائے، جس کا مقصد عوام کو ایک زیر تسلط رکھنے والی طبقاتی ریاست میں تبدیل کرنا تھا، اور یہ کہ اس کی جڑیں نوآبادیاتی تاریخ میں چھپی ہوئی ہیں۔ معاصر اردو ناولوں میں جیسے کہ “راجہ گدھ” یا “آگ کا دریا” میں افسر شاہی کی ایسی فطرت کو کھل کر دکھایا گیا ہے، جہاں یہ ادارے ذاتی مفادات، سیاسی ایجنڈوں اور اقتدار کے کھیلوں میں ملوث ہوتے ہیں، اور اس کی سب سے بڑی قیمت عام عوام کو چکانی پڑتی ہے۔ یہ ناول اس بات کا گہرا تجزیہ کرتے ہیں کہ مابعد نوآبادیاتی دور میں افسر شاہی نے کس طرح نوآبادیاتی نظام کے تحت چلنے والی حکومتوں کی طرح عوامی حقوق کی پامالی کو جاری رکھا، اور کس طرح یہ قباحتیں ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتی گئیں۔ ان ناولوں میں یہ موضوع نہ صرف ایک سماجی مسئلے کے طور پر پیش کیا جاتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی عدم مساوات کی تفصیلات کو بھی عیاں کیا جاتا ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افسر شاہی کا کردار محض انتظامی نہیں بلکہ ایک طاقتور طبقاتی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں