اردو ادب کی تاریخ میں چند ایسی شخصیات ملتی ہیں جنہوں نے علم و ادب کے میدان میں نہایت خاموشی مگر گہرے اثرات کے ساتھ کام کیا۔ ان میں مسعود حسن رضوی ادیب ایک نمایاں اور معزز نام ہے۔ وہ ایک مخلص محقق، بالغ نظر مؤرخ، بے باک ادیب، مستند مترجم، اور سادہ مزاج نقاد تھے جنہوں نے اردو زبان و ادب کی مختلف جہات میں گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔ ان کی زندگی کا ہر لمحہ علم، تحقیق، اور ادب کے فروغ کے لیے وقف رہا۔ ان کا انداز تحریر علمی، دقیق، اور سلیقے سے مزین ہوتا تھا جس میں نہ تصنع ہوتا تھا نہ ہی غیر ضروری جذباتیت بلکہ ایک سادہ، مگر باوزن علمی طرز جھلکتا تھا۔
مسعود حسن رضوی کی پیدائش 1911ء میں لکھنؤ میں ہوئی، جو اس وقت علمی و ادبی گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔ وہ ایک تعلیم یافتہ اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم کے بعد انہوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے فارسی، عربی، اور اسلامیات میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ اردو، فارسی، عربی اور انگریزی زبانوں پر گہری دسترس نے ان کے علمی اور تحقیقی کام کو نہایت وقیع بنا دیا۔ ان کا فکری پس منظر کلاسیکی اسلامی علوم، مشرقی ادب، اور مغربی تنقید کے امتزاج پر مبنی تھا، جس کی جھلک ان کے ہر مضمون اور کتاب میں نمایاں نظر آتی ہے۔
مسعود حسن رضوی ادیب کی شخصیت میں علمی سنجیدگی، مذہبی وقار، اور تہذیبی متانت تھی۔ انہوں نے صرف اردو زبان میں نہیں بلکہ عربی اور فارسی ادب میں بھی تحقیق و تدریس کے گہرے نقوش چھوڑے۔ وہ کئی علمی اداروں سے وابستہ رہے، جن میں دارالمصنفین اعظم گڑھ، ندوۃ العلماء لکھنؤ، اور دیگر اہم تحقیقی مراکز شامل ہیں۔
ان کے تحقیقی کارناموں میں تاریخِ ادب، سوانح نگاری، ترجمہ، دینیات، اور اسلامی علوم شامل ہیں۔ ان کی معروف کتاب “نقوش سیرت“ سیرت النبیﷺ پر لکھی گئی ایک جامع، مدلل اور علمی تحقیق ہے جسے دنیائے اسلام میں بے حد قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس میں انہوں نے تاریخی، سوانحی، اور عمرانی اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے حضور اکرم ﷺ کی زندگی کا ایسا نقشہ کھینچا ہے جو جدید اور قدیم قارئین دونوں کے لیے فائدہ مند ہے۔
مسعود حسن رضوی کی ایک اور وقیع تصنیف “مطالعہ سیرت“ ہے، جس میں انہوں نے حضور ﷺ کی حیات طیبہ کو مستند مآخذ کی روشنی میں مرتب کیا ہے۔ اس کتاب کی انفرادیت اس کی تحقیقی گہرائی اور علمی سنجیدگی ہے۔ وہ سیرت نگاری کو محض جذباتی وابستگی کا اظہار نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک منضبط، باقاعدہ، اور تحقیقی فن سمجھتے تھے، جس کے لیے تاریخی شعور اور علمی معیار کی ضرورت ہوتی ہے۔
مسعود حسن رضوی کی علمی کاوشیں صرف سیرت نگاری تک محدود نہیں رہیں۔ وہ اردو تحقیق کے ان مایہ ناز نقادوں میں سے تھے جنہوں نے تاریخِ زبان و ادب پر سیر حاصل کام کیا۔ ان کی تصنیف “اردو ادب کی تحریکات“ میں انہوں نے اردو زبان کے ارتقا، اس کے دبستانوں، تحریکات، اور رجحانات کا علمی جائزہ پیش کیا ہے۔ ان کا زاویۂ نظر متوازن اور غیر جذباتی ہوتا تھا۔ وہ ہر ادبی تحریک کو اس کے تاریخی، تہذیبی، اور فکری پس منظر میں دیکھتے تھے۔
ان کی ادبی خدمات میں ترجمہ نگاری کو بھی اہم مقام حاصل ہے۔ انہوں نے عربی اور فارسی کے متعدد اہم متون کو اردو میں منتقل کیا۔ ان کے ترجمے لفظی نہیں بلکہ مفہوم اور سیاق و سباق کے لحاظ سے نہایت رواں، سلیس اور بامعنی ہوتے تھے۔ ان کی ترجمہ کردہ کتب میں “البدایہ والنہایہ“ اور “السیرة النبویہ“ جیسے اہم مصادر شامل ہیں۔
مسعود حسن رضوی ادیب نے صحافت اور ادبی مجلات میں بھی فعال کردار ادا کیا۔ وہ کئی علمی رسائل کے مدیر رہے، جن میں “معارف”، “نقوش سیرت”، اور “ادب اسلامی” نمایاں ہیں۔ ان کی ادارت میں یہ رسائل محض دینی یا ادبی نہیں بلکہ ایک مکمل فکری اور تحقیقی پلیٹ فارم بن گئے۔
ایک اور اہم پہلو ان کی تعلیم و تدریس سے وابستگی ہے۔ وہ ندوۃ العلماء اور دارالمصنفین کے علاوہ مختلف اداروں میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ ان کی تدریس محض درس نہیں ہوتی تھی بلکہ ایک فکری عمل تھا، جس میں وہ طلبہ کی ذہنی، فکری اور اخلاقی تربیت پر بھی زور دیتے۔
مسعود حسن رضوی کی شخصیت علمی انکسار، دینی شعور، اور تہذیبی شائستگی کا پیکر تھی۔ ان کا لباس سادہ، طرز گفتگو متین، اور انداز تحریر جامع اور پختہ ہوتا تھا۔ انہوں نے کبھی شہرت یا اقتدار کی خواہش نہیں رکھی، بلکہ ہمیشہ تحقیق و تنقید کو عبادت کا درجہ دیا۔
ان کی وفات 1985ء میں ہوئی، لیکن ان کا فکری ورثہ آج بھی اہل علم و ادب کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کی کتابیں، مقالات، اور تحقیقی خدمات اردو ادب، سیرت نگاری، اسلامی تاریخ، اور ادبی تنقید میں ایک مستقل سرمایۂ افتخار ہیں۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مسعود حسن رضوی ادیب ایک ایسے محقق، مؤرخ، اور مفکر تھے جنہوں نے اردو ادب کو علمی وقار، فکری گہرائی، اور تہذیبی شفافیت عطا کی۔ ان کی شخصیت اردو تحقیق کی ان بنیادوں کی نمائندہ تھی جو صداقت، دیانت، اور شعور پر استوار ہوتی ہیں۔ وہ اہل ادب کے لیے ایک روشن مثال، اور اردو تحقیق کے لیے ایک معتبر حوالہ ہیں۔