مستنصر حسین تارڑ اردو ادب میں ایک ایسا نام ہے جس نے سفرنامے کی صنف کو نہ صرف نئی زندگی بخشی بلکہ اسے ایک مکمل تہذیبی و فکری تجربہ بنا دیا۔ ان کے سفرنامے محض جغرافیائی مسافتوں کا بیان نہیں بلکہ انسانی، ثقافتی، اور تہذیبی سفر کی کہانیاں ہیں۔ تارڑ کا کمال یہ ہے کہ وہ راستوں، مناظر، عمارتوں اور موسموں کو انسانی جذبات اور تمدنی شعور کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ ان کے منتخب سفرنامے — جیسے “نکلے تری تلاش میں”, “اندلس میں اجنبی”, “غارِ حرا میں شب”, “نیپال نگری”, “ہنزہ داستان”, اور “پیار کا پہلا شہر” — پاکستانی اردو ادب میں ثقافتی مطالعے کی ایسی مثالیں ہیں جہاں سفر محض مقام کی تبدیلی نہیں بلکہ شعور کی بیداری بن جاتا ہے۔
تہذیبی و ثقافتی عناصر کے حوالے سے مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے دراصل انسانی تہذیب کے ارتقائی سفر کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ کسی بھی ملک یا شہر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس کے تاریخی پس منظر، لوگوں کے رویوں، زبان، لباس، کھانوں، موسیقی، اور فنونِ لطیفہ کا باریک تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کے لیے سفر صرف سیاحت نہیں بلکہ علم و مشاہدہ کا ایک تسلسل ہے۔ “نکلے تری تلاش میں” میں جب وہ یورپ کے مختلف شہروں میں گھومتے ہیں تو ان کے مشاہدے میں صرف مناظر نہیں بلکہ یورپی تہذیب کی فکری جڑیں نظر آتی ہیں۔ وہ جدیدیت اور مادیت کے درمیان پھنسی ہوئی مغربی دنیا کو دیکھ کر قاری کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ ترقی کے باوجود مغرب روحانی طور پر محروم ہے۔
اسی طرح “اندلس میں اجنبی” ان کے سفرناموں میں تہذیبی شعور کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ یہاں تارڑ نے اسلامی اندلس کی عظمت، فنِ تعمیر، علم و ادب کی روایت، اور زوال کے اسباب کو نہایت درد اور فخر کے ساتھ بیان کیا ہے۔ وہ قرطبہ، غرناطہ، اور الحمرا کی گلیوں میں گھومتے ہوئے ایک کھوئی ہوئی تہذیب کے نقشِ قدم تلاش کرتے ہیں۔ ان کے بیانیے میں ایک طرف تاریخی شعور ہے، تو دوسری طرف ایک روحانی کرب بھی کہ ہم نے اپنی علمی اور تہذیبی میراث کو بھلا دیا۔ اس سفرنامے میں تہذیبی زوال کا نوحہ اور ماضی کی عظمت کا فخر ایک ساتھ چلتا ہے۔ یہی امتزاج تارڑ کے اسلوب کی انفرادیت ہے۔
“غارِ حرا میں شب” میں مستنصر حسین تارڑ نے مشرقِ وسطیٰ کے مذہبی اور روحانی مناظر کو بیان کیا ہے۔ یہاں تہذیبی عنصر مذہب کے ذریعے سامنے آتا ہے۔ وہ عرب تہذیب، مکہ و مدینہ کے تاریخی مقامات، اور وہاں کی مذہبی فضا کو محض عقیدت کے انداز میں نہیں بلکہ فکری اور تاریخی بصیرت کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام ایک زندہ تہذیب ہے جو عبادت کے ساتھ ساتھ علم، اخلاق، اور انسانیت کا درس دیتی ہے۔ یہ سفرنامہ قاری کو یہ احساس دلاتا ہے کہ مذہبی تاریخ صرف مقدس یادوں کا خزانہ نہیں بلکہ ایک عملی تہذیبی نظام کی بنیاد بھی ہے۔
“نیپال نگری” میں مستنصر حسین تارڑ نے جنوبی ایشیا کی ثقافت کا مشاہدہ پیش کیا ہے۔ یہاں وہ بدھ مت کی روایت، نیپالی طرزِ زندگی، اور وہاں کے لوگوں کی روحانی سادگی سے متاثر نظر آتے ہیں۔ اس سفرنامے میں وہ مشرقی تہذیبوں کے روحانی توازن کی تعریف کرتے ہیں اور اسے مغربی مادی کلچر سے ممتاز قرار دیتے ہیں۔ نیپال کے مندر، رقص، اور فطرت کے قریب طرزِ حیات کو وہ ایک زندہ ثقافتی تجربہ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔
“ہنزہ داستان” میں تارڑ پاکستانی شمالی علاقہ جات کی تہذیب، ثقافت اور انسانی سادگی کو موضوع بناتے ہیں۔ ان کے نزدیک ہنزہ کے لوگ جدید دنیا کے شور و فتن سے آزاد، ایک متوازن اور اخلاقی معاشرت کے نمائندہ ہیں۔ وہ وہاں کے لوگوں کے طرزِ زندگی، لباس، زبان، محافل، موسیقی، اور قدرت سے ہم آہنگ طرزِ فکر کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے جیسے وہ خود اس علاقے کی روح کو چھو رہا ہو۔ یہ سفرنامہ پاکستانی ثقافت کی اخلاقی اور فطری بنیادوں کا آئینہ ہے۔
اگر طاہرہ اقبال کے ناولٹس میں عورت کا شعور نمایاں ہے تو مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں قوموں اور تہذیبوں کا شعور جھلکتا ہے۔ ان کا سفرنامہ نگار ایک محض سیاح نہیں بلکہ ایک تہذیبی مورخ ہے جو ہر منظر کے پیچھے انسانی تاریخ کی پرتیں کھولتا ہے۔ وہ اکثر اپنے مشاہدات میں تقابلی تجزیہ کرتے ہیں — مشرق اور مغرب، ترقی اور روحانیت، ماضی اور حال کے درمیان۔ یہی تقابل ان کے سفرناموں کو تہذیبی مکالمے (Cultural Dialogue) کی شکل دیتا ہے۔
تارڑ کے سفرناموں میں ایک نمایاں عنصر ثقافتی ہم آہنگی کا تصور ہے۔ وہ ہر جگہ انسان کو انسان کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چاہے وہ جاپان کے مندر ہوں، اندلس کی مساجد، یا نیپال کی پہاڑیاں — وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تمام تہذیبوں کی بنیاد محبت، حسن اور انسان دوستی ہے۔ ان کی تحریروں میں ایک آفاقی پیغام موجود ہے کہ دنیا کی مختلف ثقافتیں باہمی احترام اور سمجھ کے ذریعے ایک دوسرے کو مکمل کرتی ہیں۔
ان کے سفرناموں میں پاکستانی ثقافت کا عکس بھی نمایاں ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، اپنے وطن کے رنگ، زبان، اور احساسات ساتھ لے جاتے ہیں۔ ان کا بیانیہ قاری کو یاد دلاتا ہے کہ پاکستانی شناخت محض جغرافیائی نہیں بلکہ تہذیبی ورثے، روایات، اور اقدار سے جڑی ہے۔
تنقیدی طور پر دیکھا جائے تو مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں تہذیبی و ثقافتی عناصر کو تین سطحوں پر تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- تاریخی تہذیبی سطح — جہاں وہ ماضی کی تہذیبوں کا تجزیہ کرتے ہیں جیسے اندلس اور اسلامی تمدن۔
- سماجی و ثقافتی سطح — جہاں وہ روزمرہ زندگی، عوامی رویوں، زبان، لباس، اور روایات کا مطالعہ کرتے ہیں۔
- روحانی و فکری سطح — جہاں وہ تہذیب کو انسان کے اندر کے شعور اور اخلاقیات سے جوڑتے ہیں۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے اردو ادب میں تہذیبی دستاویزات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ہمیں یہ سمجھاتے ہیں کہ دنیا کی اصل خوبصورتی اس کی ثقافتی رنگا رنگی میں ہے، اور انسان اسی وقت مکمل ہوتا ہے جب وہ مختلف تہذیبوں کے درمیان پل بناتا ہے، دیوار نہیں۔ ان کے سفرنامے دراصل ایک انسان دوست فلسفۂ حیات کا اعلان ہیں — جہاں سفر صرف فاصلے طے کرنے کا نام نہیں بلکہ انسانی شعور، محبت، اور شناخت کی تلاش کا سفر ہے۔



