کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

محمد طفیل ــــــ حیات و ادبی خدمات

محمد طفیل کی حیات اور ادبی خدمات اردو ادب کی اس روایت کا حصّہ ہیں جس میں انسان دوستی، تہذیبی آگہی، فکری سچائی، اور ادبی وابستگی بنیادی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک ادبی مدیر، مترجم اور نثرنگار تھے، بلکہ اپنی ذات میں ایک پورا ادبی ادارہ، ایک فکری مدرسہ، اور اردو ادب کے لیے عشق کا مجسم اظہار بھی تھے۔ ان کی زندگی کا بیشتر حصّہ اردو ادب کی خدمت میں صرف ہوا اور انہوں نے خود کو اس مشن کے لیے وقف کر دیا کہ اردو زبان نہ صرف بقاء پائے بلکہ اس کے دامن میں جدید فکری، تخلیقی اور تنقیدی رجحانات بھی بکھرتے رہیں۔ محمد طفیل کی سب سے نمایاں پہچان ان کا رسالہ “نقوش” ہے، جو اردو کے علمی اور ادبی صحافت کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن ان کی خدمات صرف مدیرانہ سطح تک محدود نہیں، بلکہ انہوں نے اردو ادب کے قاری کو ایک نیا شعور، نیا ذائقہ، اور نیا زاویہ نظر دیا۔

محمد طفیل 1917 میں بمبئی میں پیدا ہوئے۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ کراچی آ گئے، اور کچھ عرصے کے بعد لاہور کو اپنا علمی و ادبی مستقر بنایا۔ وہ ایک فطری ادیب تھے جنہیں نہ صرف ادب سے محبت تھی بلکہ ادب کے مزاج، تقاضوں اور تاریخی پس منظر کا بھی گہرا ادراک تھا۔ محمد طفیل نے “نقوش” کے ذریعے جس ادبی خدمت کا آغاز کیا، وہ اس دور کے کسی بھی اور ادبی رسالے سے مختلف تھی۔ “نقوش” صرف ایک رسالہ نہیں بلکہ ایک ادارہ، ایک ادبی تحریک، اور ایک فکری تجربہ گاہ تھا۔ اس رسالے کی خاص بات اس کی موضوعاتی اشاعتیں تھیں، جن میں انہوں نے اردو ادب کی اہم شخصیات اور رجحانات پر نہایت محنت، تحقیقی بصیرت اور فکری گہرائی کے ساتھ مواد جمع کیا۔ غالب نمبر، اقبال نمبر، سرسید نمبر، رسالہ خواتین، افسانہ نمبر، مزاح نمبر، خاکہ نمبر اور تراجم نمبر جیسی اشاعتیں آج بھی اپنی نوعیت کی منفرد مثالیں ہیں، جن میں معیار، وسعت اور تحقیقی ذمہ داری کا اعلیٰ نمونہ ملتا ہے۔

ان نمبروں کی تیاری کے لیے محمد طفیل نے نہ صرف اردو کے بلکہ انگریزی، فارسی، عربی، فرانسیسی اور دیگر زبانوں کے مصادر سے استفادہ کیا، اور اس بات کو ممکن بنایا کہ قاری کو اردو زبان میں ایسا تحقیقی اور معلوماتی مواد میسر آئے جو عالمی معیار پر پورا اترے۔ ان کی محنت، عرق ریزی، اور تحقیق پسندی کی مثالیں اردو صحافت میں بہت کم ملتی ہیں۔ وہ مواد کو صرف ترتیب نہیں دیتے تھے بلکہ اس میں علمی ربط، اسلوبی ہم آہنگی، اور فکری یکسانی کا خیال بھی رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ “نقوش” کی ہر اشاعت قاری کے لیے ایک فکری اور جمالیاتی تجربہ ہوتی تھی، جس سے اس کا ذہن روشن اور دل منور ہوتا۔

محمد طفیل کی نثر کا انداز بھی ان کی شخصیت کی طرح باوقار، نپا تُلا، اور فکری توازن کا حامل تھا۔ ان کی تحریروں میں نہ لفاظی ہے، نہ سطحی جذباتیت، بلکہ ایک شائستہ، معیاری اور دانشورانہ رویہ نمایاں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے اداریوں اور شخصی مضامین میں ادب کی معنویت، سماج کے تقاضوں، اور اردو زبان کی بقا کے مسائل پر سنجیدہ گفتگو کی۔ ان کے نزدیک ادب صرف تفریح یا جذباتی اظہار کا ذریعہ نہیں تھا بلکہ وہ اسے ایک تمدنی فریضہ سمجھتے تھے۔ ان کی فکر میں ایک خاموش مزاحمت، ایک تہذیبی وفاداری، اور ایک جمالیاتی حساسیت پائی جاتی ہے، جو ان کی تحریروں کو دیرپا بناتی ہے۔

ایک اور نمایاں پہلو محمد طفیل کی شخصیت کا یہ تھا کہ وہ ادیبوں اور شاعروں کے نہایت قدر دان تھے۔ انہوں نے اپنے رسالے کے ذریعے بے شمار نوجوان ادیبوں کو متعارف کرایا، ان کی حوصلہ افزائی کی، اور ان کی تحریروں کو نمایاں جگہ دی۔ ان کے نزدیک ادب کا فروغ صرف کلاسیکی مصنفین کی تعریف میں نہیں، بلکہ نئے خون کی پذیرائی میں بھی مضمر تھا۔ انہوں نے نہ صرف بڑے بڑے ناموں کو شائع کیا بلکہ ان کا معیار قائم رکھنے کے لیے ان سے تحریریں لیتے وقت کڑی شرائط بھی عائد کیں۔ وہ ایک کھرے مدیر تھے، جو بغیر معیار کے کسی تحریر کو شائع کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ انہوں نے اپنی ادارتی پالیسی میں ہمیشہ اصول، تہذیب اور دیانت کو اولیت دی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ “نقوش” اردو ادب کا قابلِ اعتماد حوالہ بن گیا۔

محمد طفیل نے نہ صرف اردو ادب کی خدمت کی بلکہ دیگر زبانوں کے ادب کو اردو کے قاری سے متعارف کرانے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ ان کے تراجم میں عالمی ادب کی نمائندہ تحریریں شامل تھیں، جنہیں انہوں نے نہایت سلیقے اور شعور کے ساتھ اردو میں منتقل کیا۔ ان تراجم میں نہ صرف اصل متن کی روح موجود ہوتی تھی بلکہ اردو زبان کی خوبصورتی بھی پوری آب و تاب سے نمایاں ہوتی تھی۔ ان کے نزدیک ترجمہ فقط لغوی تبدیلی نہیں بلکہ ایک تخلیقی عمل تھا جس میں مترجم اصل مصنف کی فکر کو نئی زبان میں اسی حُسن اور تاثر کے ساتھ منتقل کرتا ہے۔

محمد طفیل کی علمی دیانت، تہذیبی نفاست، اور فکری وسعت نے انہیں ایک ایسی شخصیت بنا دیا جو ادب میں معیار، صداقت اور وقار کی علامت سمجھی جاتی تھی۔ وہ کسی سیاسی، مذہبی یا ادبی گروہ بندی کا حصہ نہ تھے، بلکہ ایک آزاد مزاج دانشور کی حیثیت سے اپنی راہ خود متعین کرتے تھے۔ یہی آزادی اور فکری خودمختاری ان کی تحریروں، ادارت، اور طرزِ زندگی میں جھلکتی ہے۔ ان کا شمار ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے شہرت کے شور سے الگ ہو کر خاموشی کے ساتھ ادب کی آبیاری کی، اور اپنے پیچھے ایسا علمی ورثہ چھوڑا جس سے نسلیں سیکھتی رہیں گی۔

ان کی وفات کے بعد اردو ادب میں ایک خلا پیدا ہو گیا، جسے اب تک پُر نہیں کیا جا سکا۔ ان کے قائم کردہ معیار، ان کی علمی فراست، اور ان کے تہذیبی وژن کی کمی آج اردو صحافت اور ادب میں شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ “نقوش” جیسا رسالہ اب ایک خواب بنتا جا رہا ہے، جس کی شان اور وقار محمد طفیل جیسے مدیر کی مرہونِ منت تھی۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ادب کو وقتی جذبات، تجارتی تقاضوں یا سستی مقبولیت کے لیے نہیں بلکہ فکری دیانت، جمالیاتی ذوق، اور تہذیبی شعور کے ساتھ برتا جائے تو وہ صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔

آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ محمد طفیل اردو ادب کے ان خاموش معماروں میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف اپنی ذات کو ادب کے لیے وقف کیا بلکہ ایک پوری نسل کو ادب کی عظمت، تہذیب کی روشنی، اور زبان کی شائستگی کا درس دیا۔ ان کی خدمات اردو ادب کی تاریخ میں نہایت روشن اور زندہ باب کی حیثیت رکھتی ہیں، اور آنے والی نسلوں کو اس باب سے سیکھنے، سمجھنے اور اپنانے کی ضرورت ہے تاکہ اردو ادب کا یہ فکری، اخلاقی، اور جمالیاتی سلسلہ جاری و ساری رہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں