Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

محمد حمید شاہد کے افسانوں میں  اسلوبی ارتقا کا مطالعہ

محمد حمید شاہد کے افسانوں میں اسلوبی ارتقا اردو ادب میں ایک اہم اور دلچسپ پہلو کی حیثیت رکھتا ہے، جس کی جڑیں ان کے تخلیقی سفر اور فنون میں مسلسل جدت پسندی میں مضمر ہیں۔ ان کے افسانوں کا اسلوب ابتدا میں روایتی بیانیہ اور کلاسیکی ساخت کا حامل تھا، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان کے اسلوب میں ایک نیا رنگ اور جہت آئی۔ ابتدائی دور میں ان کا اسلوب نسبتاً سادہ اور رواں تھا، جس میں کرداروں کی نفسیات اور ماحول کی عکاسی کی گئی تھی، تاہم جیسے جیسے ان کا ادبی سفر آگے بڑھا، انہوں نے زبان، بیان، اور اسلوب میں پیچیدگیوں کو شامل کیا، جس سے ان کے افسانے ایک گہری فکری اور جمالیاتی سطح تک پہنچ گئے۔ ان کے اسلوبی ارتقا میں سب سے نمایاں تبدیلیاں ان کے بیانیہ انداز، علامتوں اور استعاروں کے استعمال میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ محمد حمید شاہد نے حقیقت پسندانہ اسلوب سے ہٹ کر، جدید افسانوی اسلوب میں تجربات کیے اور تخلیقی لحاظ سے زبان اور ساخت میں نیاپن لایا۔ انہوں نے نہ صرف موضوعات میں تنوع پیدا کیا بلکہ اسلوب کی پیچیدگیوں کو بڑھایا، جس سے ان کے افسانے نہ صرف سماجی اور سیاسی حقیقتوں کو عکاسی کرتے ہیں بلکہ قاری کی ذہنیت کو چیلنج کرنے اور اسے ایک گہری فکر میں ڈوبونے کا ذریعہ بھی بن گئے۔ ان کے افسانوں میں فنی اور شعوری سطح پر اسلوبی ارتقا کا مقصد انسانی نفسیات، سماجی تضادات اور زندگی کے مختلف پہلوؤں کو زیادہ حقیقت پسندانہ اور پیچیدہ انداز میں پیش کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ، ان کے افسانوں میں رواں اور غیر روایتی بیانیہ اسلوب نے افسانہ نویسی کو ایک نیا زاویہ دیا، جس میں کرداروں کے ذہنی اور جذباتی تجربات کو ایک نئی روشنی میں پیش کیا گیا۔ اسلوبی ارتقا کے اس عمل میں محمد حمید شاہد نے نہ صرف افسانے کی شکل اور مواد میں تبدیلیاں کیں بلکہ اپنے قارئین کو ایک نئی بصیرت بھی فراہم کی، جو ان کے افسانوں کی اہمیت کو مزید اجاگر کرتی ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں