مجید امجد کی منتخب نظموں کا ماحولیاتی تنقیدی مطالعہ ایک گہرے اور دلچسپ زاویے سے کیا جا سکتا ہے، کیونکہ ان کی شاعری میں قدرتی مناظر، ماحول اور انسانی تعلقات کو ایک خاص روشنی میں پیش کیا گیا ہے۔ ان کی نظموں میں ماحولیاتی مسائل کا اظہار محض سطحی نہیں بلکہ ایک گہری تشویش اور شعور کے ساتھ کیا گیا ہے، جس میں انسان اور قدرت کے درمیان تعلق کی پیچیدگیوں کو نمایاں کیا گیا ہے۔ مجید امجد کی شاعری میں قدرتی منظرنامے کا تذکرہ محض جمالیاتی تجربہ نہیں ہوتا بلکہ اس میں ایک فکری اور فلسفیانہ پس منظر بھی چھپتا ہے، جہاں وہ قدرتی عناصر کو انسان کی داخلی دنیا سے جوڑتے ہیں۔ ان کی منتخب نظموں میں انسان کی فطرت کے ساتھ ہم آہنگی، فطری وسائل کا استحصال اور ماحولیاتی بحران کی طرف اشارے ملتے ہیں، جو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے ماحولیات کے تحفظ اور انسانیت کی ذمہ داریوں کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں ماحول کا تذکرہ ایک علامتی انداز میں ہوتا ہے، جہاں فطرت کی تصویر کشی کے ذریعے انسان کے رویوں، خیالات اور اس کی روحانیت کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ اس تنقیدی مطالعے میں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ مجید امجد نے اپنی نظموں میں ماحولیاتی مسائل کی طرف نہ صرف تخلیقی سطح پر توجہ دی بلکہ ان میں ایک انسان دوست اور ماحولیاتی ذمہ داری کا پیغام بھی دیا، جو آج کے دور میں اور زیادہ اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ان کی نظموں میں قدرت کی اہمیت اور انسان کے ساتھ اس کے تعلق کو گہری فکر کے ساتھ پیش کیا گیا ہے، جو ایک ماحولیاتی تنقید کی صورت میں اہمیت رکھتا ہے۔