Logo

کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

مابعدنوآبادیات اور پاکساتانی سماج،  اردو انشا پردازی میں دوجذبیت کی حامل زبان کا  تجزیاتی مطالعہ

مابعدنوآبادیات اور پاکستانی سماج کے تناظر میں اردو انشا پردازی میں دوجذبیت کی حامل زبان کا تجزیاتی مطالعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ کس طرح نوآبادیاتی اثرات نے پاکستانی معاشرے کی زبان، ادب، اور فکری رویوں کو متاثر کیا ہے۔ اردو انشا پردازی میں جذباتی، استعاراتی اور فکری گہرائی رکھنے والی زبان دراصل نوآبادیاتی پس منظر میں شناخت کے بحران، سامراجی بیانیے کی مزاحمت، اور مقامی ثقافت کے احیا کی عکاسی کرتی ہے۔ مابعدنوآبادیاتی نظریہ یہ واضح کرتا ہے کہ نوآبادیات کے بعد کے عہد میں ادب محض تخلیقی اظہار نہیں بلکہ ایک بیانیہ جاتی ردعمل بھی ہوتا ہے، جس کے ذریعے مصنفین اپنی سماجی، ثقافتی اور سیاسی وابستگیوں کو ظاہر کرتے ہیں۔ اردو انشا پردازی میں جو جذباتیت پائی جاتی ہے، وہ محض رومانوی یا تاثراتی نہیں بلکہ اس میں تاریخی کرب، سماجی ناہمواریوں کے خلاف احتجاج، اور مقامی زبان و ثقافت کی بازیافت جیسے عناصر شامل ہوتے ہیں۔ پاکستانی معاشرت میں زبان ہمیشہ طاقت اور شناخت کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے، اور مابعدنوآبادیاتی اردو انشا پرداز اس زبان کے ذریعے نہ صرف اپنی تہذیبی شناخت کا دفاع کرتے ہیں بلکہ سامراجی اثرات کے خلاف ایک فکری مزاحمت بھی پیدا کرتے ہیں۔ انشا پردازی میں موجود استعارات، تشبیہات اور علامتی پیرایہ اظہار، نہ صرف زبان کی اثر انگیزی کو بڑھاتے ہیں بلکہ قارئین کے جذبات پر بھی گہرا اثر چھوڑتے ہیں۔ اس تناظر میں اردو ادب کا تجزیہ یہ واضح کرتا ہے کہ نوآبادیاتی دور کے تجربات اور ان کے بعد کی صورت حال نے زبان کے اسالیب اور فکری اظہار پر دیرپا اثرات مرتب کیے، جن کی گونج آج بھی اردو انشا پردازی میں محسوس کی جا سکتی ہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں