برصغیر میں صوفی سلسلے ہمیشہ روحانی اصلاح، بین المذاہب ہم آہنگی، اور عوامی شعور کی بیداری کا ذریعہ رہے ہیں۔ ان میں چشتی سلسلہ نمایاں اہمیت کا حامل ہے، جو خلوص، محبت، رواداری اور خدمتِ خلق کے اصولوں پر استوار تھا۔ چشتی سلسلے کے مشائخ نے جہاں اسلامی روحانیات کو عام کیا، وہیں اردو زبان کے فروغ اور ادبی روایت کو مستحکم کرنے میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ لاہور کے چشتی خاندان نے اردو زبان و ادب کی آبیاری علمی، دینی، شعری اور نثری سطح پر کی، اور یہ خدمات کسی خاص دور یا شخصیت تک محدود نہیں بلکہ کئی نسلوں پر محیط ایک مسلسل اور مربوط روایت کا حصہ ہیں۔
لاہور، جو صدیوں سے علم و ادب کا مرکز رہا ہے، چشتی خانوادے کی علمی و روحانی سرگرمیوں کا اہم گڑھ بھی رہا۔ یہاں چشتی مشائخ نے خانقاہوں، مدارس اور مکتبوں کے ذریعے عوام تک دینی، اخلاقی اور ادبی پیغام پہنچایا۔ چونکہ اردو زبان عوام کی زبان بنتی جا رہی تھی، اس لیے چشتی مشائخ نے فارسی یا عربی کے بجائے اردو کو ذریعہ اظہار بنایا تاکہ ان کا پیغام براہ راست عوام تک پہنچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مواعظ، ملفوظات اور نصائح اردو زبان میں محفوظ کی گئیں، اور وہ نہ صرف دینی تعلیم بلکہ اردو زبان کی تعلیم کا بھی ذریعہ بنیں۔
حضرت خواجہ غلام فرید چشتیؒ، حضرت خواجہ حافظ محمد جمالؒ اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی لاہوری جیسے بزرگوں نے لاہور کے علمی و ادبی ماحول میں ایک روحانی فضا پیدا کی، جس نے اردو نثر و نظم کو ایک نئی معنویت دی۔ ان کے حلقۂ ارادت میں شامل صوفی شعرا نے اردو شاعری کو وحدت الوجود، عشقِ حقیقی، اور انسان دوستی جیسے تصوفی تصورات سے مزین کیا۔ ان بزرگوں کی اردو نعتیہ شاعری، منقبت، اور صوفیانہ کلام آج بھی علمی و ادبی حلقوں میں عزت و احترام سے پڑھا جاتا ہے۔
چشتی مشائخ کی خانقاہیں نہ صرف روحانی تربیت کے مراکز تھیں بلکہ یہ زبان و ادب کے غیر رسمی ادارے بھی تھیں جہاں علمی مجالس، وعظ، تلاوت اور اردو اشعار کی محفلیں منعقد ہوتیں۔ لاہور میں واقع داتا دربار اور اس سے وابستہ چشتی مشائخ کی تعلیمات نے بھی عوامی سطح پر اردو زبان کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ دربار ہر وقت عوام کے لیے کھلا رہتا اور یہاں ہونے والے خطبات، ملفوظات اور کلام میں اردو زبان کی سادگی، تاثیر اور معنویت نمایاں ہوتی۔
لاہور کے چشتی بزرگوں کی ایک بڑی خدمت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اردو ترجمہ و تفسیر کے کام کو فروغ دیا۔ انہوں نے عام فہم اردو زبان میں قرآن و حدیث کی تعلیم دی، اور اس کے ذریعے اردو نثر کو ایک فکری اور علمی جہت عطا کی۔ بعض مشائخ کے مکتوبات اور رسائل آج بھی اردو نثر کی مذہبی اور صوفی روایت میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ ان تحریروں میں اخلاقی نصیحتیں، روحانی تربیت، اور عوامی مسائل کا حل موجود ہوتا، جو عام آدمی کی زبان میں عام فہم انداز میں پیش کیا جاتا تھا۔ یہی وہ عنصر تھا جس نے اردو کو مذہبیات اور روحانیات کے لیے ایک مؤثر زبان بنا دیا۔
لاہور کے چشتی مشائخ نے نوجوان نسل کو نہ صرف روحانیت بلکہ علم و ادب کی راہ پر بھی گامزن کیا۔ ان کے مدارس میں اردو زبان کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنایا گیا، اور اس کے ذریعے اردو خواندگی کو فروغ ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اردو میں مذہبی نظم گوئی کو بھی فروغ دیا۔ ان کے بعض مریدین نے اردو میں حمد، نعت، منقبت اور مراثی لکھے جو بعد ازاں اردو ادب کی قیمتی میراث بنے۔ ان کا اسلوب سادہ، دلنشین اور تصوف کے رنگ سے بھرپور ہوتا تھا۔
برصغیر میں آزادی سے قبل اور بعد لاہور میں اردو کے فروغ میں صوفی مشائخ کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ چشتی مشائخ کی صحبت میں رہنے والے ادیب، شعرا اور علما نے اردو زبان کو صرف ایک ذریعہ اظہار نہیں بلکہ ایک فکری اور روحانی وسیلہ بنایا۔ چشتی خانوادے کے بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے والے بہت سے اردو شاعر بعد میں خود اردو ادب کے بڑے نام بنے۔ ان میں بعض نے اپنی شاعری میں روحانیت اور اخلاقیات کے مضامین کو جگہ دی، جو ان کی خانقاہی تربیت کا نتیجہ تھا۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور کے چشتی مشائخ نے خواتین کی دینی تعلیم و تربیت کے لیے بھی اردو کو مؤثر ذریعہ بنایا۔ ان کے بعض خانوادوں نے خواتین کے لیے اردو میں مذہبی تعلیم کا خاص انتظام کیا، جس کی وجہ سے گھریلو سطح پر بھی اردو کے ذریعے دینی شعور عام ہوا۔ اس اقدام نے اردو زبان کو گھریلو اور معاشرتی سطح پر رائج کرنے میں مدد دی اور یوں اردو محض علمی حلقوں تک محدود نہ رہی بلکہ روزمرہ زندگی کا حصہ بن گئی۔
لاہور کے چشتی خانوادے نے جدید دور میں بھی اردو خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔ بعض خانوادے آج بھی اردو خطابت، اردو ادب کی تدریس، اردو تصوف کی ترویج، اور اردو رسائل و جرائد کے ذریعے اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان مشائخ کی اولادیں اور شاگرد آج بھی مدارس، خانقاہوں اور جامعات کے ذریعے اردو ادب و زبان کی خدمت کر رہے ہیں۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ لاہور کا چشتی خانوادہ اردو زبان و ادب کی اس روایت کا حصہ ہے جو روحانی، فکری، اور اخلاقی بنیادوں پر استوار ہے۔ ان کی خدمات ایک طرف دینِ اسلام کی اشاعت سے جڑی ہیں اور دوسری طرف اردو زبان کی ترویج و ترقی سے۔ یہ خانوادہ اس عظیم روایت کا امین ہے جس نے اردو کو محض زبان نہیں، بلکہ ایک تہذیب، ایک پیغام اور ایک طرزِ زندگی بنا کر پیش کیا۔ ان کی علمی، دینی اور ادبی خدمات اردو کے روشن ماضی کا ایک اہم باب ہیں جنہیں نظرانداز کرنا اردو کی تاریخ سے ناانصافی ہوگی۔