کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

لاہور ميں اردو تھيڑ کی روايت اور ارتقا

لاہور، برصغیر کی تہذیبی اور ثقافتی تاریخ میں ہمیشہ ایک نمایاں مقام رکھتا رہا ہے۔ اس شہر کو اردو زبان اور فنونِ لطیفہ کی آبیاری کا مرکز قرار دیا جا سکتا ہے، جہاں اردو تھیٹر نے نہ صرف جنم لیا بلکہ ایک مستقل، بامعنی اور متحرک روایت کی صورت اختیار کی۔ اگرچہ اردو ڈرامے کی ابتدا دہلی اور لکھنؤ جیسے مراکز میں ہوئی، مگر لاہور نے ان روایات کو اپنی فکری اور سماجی فضا میں سمو کر جو نئی صورت دی، وہ ایک جداگانہ شناخت رکھتی ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر میں جب انگریزوں نے لاہور میں تعلیمی ادارے، پرنٹنگ پریس اور ادبی تنظیمیں قائم کیں، تو اس کے اثرات اردو ادب، بالخصوص اردو ڈرامے پر بھی مرتب ہوئے۔ لاہور کے کالجوں میں اسٹیج ڈرامے تعلیمی اور اصلاحی سرگرمی کے طور پر شامل ہوئے اور یوں تھیٹر، اردو زبان کی ایک تخلیقی جہت بن کر ابھرنے لگا۔

ابتدائی دور کے یہ ڈرامے زیادہ تر تعلیمی نوعیت کے ہوتے تھے جن میں اخلاقی اصلاح، سماجی شعور اور تمدنی اقدار کو اجاگر کیا جاتا تھا۔ انگریزی کلاسیکی ڈراموں کے تراجم، مذہبی تمثیلیں اور تاریخی موضوعات پر مبنی مکالماتی ڈرامے لاہور کے مختلف تعلیمی اداروں میں پیش کیے جاتے رہے۔ ان ڈراموں میں اس وقت کی ادبی شخصیات نے حصہ لیا اور اردو زبان کے اسلوب کو اسٹیج پر پیش کرنے کی نئی راہیں ہموار کیں۔ آہستہ آہستہ یہ سرگرمیاں محدود دائرے سے نکل کر عوامی حلقوں میں داخل ہونے لگیں اور لاہور کے ادبی مزاج نے تھیٹر کو ایک سماجی بیانیے کی شکل دے دی۔

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو تھیٹر کو ایک نئی فکری اور جمالیاتی فضا میسر آئی۔ تقسیمِ ہند کے سانحے نے فنکاروں اور ادیبوں کو اندر سے جھنجھوڑا اور اس کا اثر اردو ڈرامے پر بھی ہوا۔ ہجرت، بے دخلی، نئی شناخت، اور نو تشکیل ریاست کے مسائل اردو ڈرامے کا موضوع بنے۔ لاہور، جو اس وقت پاکستانی ثقافت کا مرکزی محور بن چکا تھا، اردو تھیٹر کے فروغ میں پیش پیش رہا۔ الحمرا آرٹس کونسل، جو قیام پاکستان کے فوراً بعد فعال ہوئی، نے اردو تھیٹر کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔ یہاں پیش کیے جانے والے ڈراموں میں فکری گہرائی، سماجی تنقید اور سیاسی شعور نمایاں ہوتا۔ اس دوران چند ایسے فنکار اور ہدایت کار ابھرے جنہوں نے اردو ڈرامے کو فن اور پیغام کی ایک جامع شکل میں ڈھالا۔

ساٹھ اور ستر کی دہائیاں لاہور میں اردو تھیٹر کے لیے ایک طرح کا سنہرا دور ثابت ہوئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عوامی سطح پر اسٹیج ڈراموں کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان ڈراموں میں طنز و مزاح، موسیقی، اور مقامی زبانوں کی چاشنی شامل کی گئی تاکہ عوام کے دلوں تک رسائی حاصل کی جا سکے۔ امان اللہ، مستانہ، نرگس، ببو برال، صفدر نہی اور ناصر چنیوٹی جیسے فنکاروں نے اپنے فن سے لاہور تھیٹر کو مقامی مزاج سے ہم آہنگ کر دیا۔ اگرچہ ان ڈراموں پر بازاری اور سطحی ہونے کے الزامات بھی لگائے گئے، تاہم ان کی مقبولیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان ڈراموں نے عام آدمی کی زبان، روزمرہ کے مسائل، اور طبقاتی کشمکش کو مزاح کے پردے میں اس انداز سے پیش کیا کہ تماشائی محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ غور و فکر پر بھی مجبور ہوا۔

اسی دوران کچھ فکری اور نظریاتی گروہوں نے سنجیدہ اردو تھیٹر کو بھی فروغ دیا۔ لاہور کے ادبی اور ترقی پسند حلقوں نے اسٹیج کو سیاسی اور سماجی شعور اجاگر کرنے کا ایک ذریعہ بنایا۔ اجوکا تھیٹر، جس کی بنیاد مدیحہ گوہر نے رکھی، اس میدان میں ایک انقلابی اضافہ ثابت ہوا۔ اجوکا نے انسانی حقوق، صنفی مساوات، سماجی ناانصافی اور مذہبی انتہا پسندی جیسے موضوعات پر ڈرامے پیش کیے، جنہوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی پذیرائی حاصل کی۔ اجوکا کے ڈرامے جیسے ’’بُرّی عورت‘‘، ’’دُرّی دیواراں‘‘ اور ’’کالا میلہ‘‘، اس بات کا ثبوت ہیں کہ اردو تھیٹر صرف تفریح کا ذریعہ نہیں بلکہ فکری اور تخلیقی مزاحمت کا مؤثر ہتھیار بھی ہو سکتا ہے۔

اسی دوران لوک رہسہ، تھیٹر ورکشاپ، اور تھیٹر فورم جیسے ادارے بھی وجود میں آئے جنہوں نے دیہی اور شہری مسائل کو اسٹیج پر لا کر سماجی شعور کی نئی جہتیں پیدا کیں۔ لاہور کے تھیٹر میں علاقائی ثقافت، لوک داستانوں، اور مقامی زبانوں کا امتزاج، اردو تھیٹر کو ایک جامع اور کثیرالثقافتی اظہار بنانے میں معاون رہا۔ یہاں اردو صرف ایک زبان کے طور پر نہیں، بلکہ ایک فکری و تہذیبی وحدت کے طور پر ابھری، جس نے پنجابی، سرائیکی، اور انگریزی عناصر کو بھی اپنے اندر جذب کیا۔

نئے دور میں، خاص طور پر 2000ء کے بعد، لاہور کے اردو تھیٹر کو مختلف چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ ایک جانب مارکیٹ پر مبنی تھیٹر نے ڈرامے کو صرف تفریحی، سطحی اور تجارتی قالب میں ڈھالنے کی کوشش کی، تو دوسری جانب کچھ باشعور حلقوں نے سنجیدہ اور معیاری اردو تھیٹر کو زندہ رکھنے کی سعی کی۔ الحمرا، پاک ٹی ہاؤس، اور مختلف یونیورسٹیوں میں منعقدہ ڈرامہ فیسٹیولز اس بات کی علامت ہیں کہ لاہور کا اردو تھیٹر آج بھی سانس لے رہا ہے اور اس میں نئی نسل کی شرکت، اردو زبان اور تھیٹر کے مستقبل کے لیے امید کی کرن ہے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ لاہور میں اردو تھیٹر کی روایت محض اسٹیج پر اداکاری یا مکالمے تک محدود نہیں، بلکہ یہ شہر کی فکری تاریخ، ثقافتی تنوع، اور سماجی شعور کا بھی استعارہ ہے۔ اردو تھیٹر نے اس شہر میں ایک ایسی فضا پیدا کی جس میں فنکار، ادیب، ناظر اور سماج سب ایک مکالمے میں شریک ہوئے۔ آج بھی لاہور کے اردو تھیٹر میں وہ امکان موجود ہے کہ وہ معاشرے کی پیچیدگیوں کو فکری، جمالیاتی اور تہذیبی سطح پر دریافت کرتا رہے۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں