قیامِ پاکستان کے بعد اقبال شناسی میں خواتین کا حصہ ایک اہم مگر نسبتاً کم نمایاں پہلو ہے، جس پر تحقیقی اور تنقیدی طور پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ برصغیر کی تاریخ میں خواتین نے ہمیشہ علمی، فکری اور ادبی میدانوں میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا ہے، اور اقبالیات کے شعبے میں بھی خواتین نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اگرچہ اس میدان میں مرد محققین کی تعداد زیادہ رہی ہے، لیکن خواتین نے بھی اقبال کی فکر، شاعری اور فلسفے کو سمجھنے اور عام کرنے میں بھرپور حصہ ڈالا ہے۔اقبالیات میں خواتین کے کام کو مختلف جہات سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کئی خواتین محققین نے اقبال کے فلسفہ خودی، تصورِ عشق، اور قومی و ملی نظریات پر تحقیق کی ہے۔ ان میں سے کچھ نے اقبال کے نسائی تصورات، ان کی شاعری میں عورت کے کردار، اور خواتین کی سماجی حیثیت پر اقبال کی آرا پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر ناصرہ جبیں، ڈاکٹر نگہت بانو، ڈاکٹر حمیرا شاہین، اور پروفیسر خورشید رضوی جیسی محقق خواتین نے اقبال کے فلسفے اور شاعری پر اہم تحقیقی مضامین لکھے ہیں۔مزید برآں، کئی خواتین نے اقبال کے فکری اثرات پر بھی تحقیقی کام کیا ہے، خاص طور پر ان کے اثرات برصغیر کی خواتین پر کس طرح مرتب ہوئے، اور کیسے ان کے فلسفہ خودی نے خواتین کو اپنی شناخت اور مقام کی پہچان دی۔ کئی خواتین اقبال کی شاعری اور فکر کو نصاب میں شامل کرنے، اقبالیات پر سیمینارز منعقد کرنے، اور نوجوان نسل میں اقبال کی فکر کو عام کرنے میں بھی متحرک رہی ہیں۔ مجموعی طور پر، اقبال شناسی میں خواتین کا حصہ اگرچہ تعداد کے لحاظ سے مردوں کی نسبت کم ہے، لیکن ان کے تحقیقی کام، تنقیدی جائزے، اور فکری مباحث میں ان کا کردار نہایت اہم ہے۔ اس میدان میں مزید کام کی ضرورت ہے، خاص طور پر نسائی تناظر میں اقبال کے خیالات کا تجزیہ، اقبال اور خواتین کی تعلیم، اور اقبال کی شاعری میں عورت کے کردار پر مزید تحقیق ہونی چاہیے تاکہ اقبال شناسی کے دائرے کو مزید وسعت دی جا سکے۔