عہدِ یوسفی سے مراد وہ ادبی دور ہے جس میں مشتاق احمد یوسفی نے اردو نثر، خاص طور پر طنز و مزاح کو نئی بلندیوں تک پہنچایا اور ایک منفرد اسلوب کو رواج دیا۔ مشتاق احمد یوسفی کو اردو طنز و مزاح کا سب سے بڑا نثر نگار مانا جاتا ہے، جنہوں نے اپنی تحریروں میں زبان کی نفاست، فکری گہرائی، اور لطافت کے ایسے انوکھے امتزاج کو جنم دیا جو اردو ادب میں کسی اور مزاح نگار کو نصیب نہ ہو سکا۔ ان کے ادبی دور کو “عہدِ یوسفی” کہنا اس لیے بجا ہے کہ ان کی تحریریں نہ صرف طنز و مزاح کے اعلیٰ نمونے ہیں بلکہ اردو نثر میں ایک نئی فکری سمت کا تعین بھی کرتی ہیں۔ چراغ تلے، خاکم بدہن، زرگزشت، آبِ گم اور شامِ شعرِ یاراں جیسی کتب میں یوسفی نے اپنی تحریری مہارت، لفظوں کی بازی گری، اور طنزیہ و مزاحیہ انداز میں فلسفیانہ گہرائی کو یکجا کیا۔ ان کے اسلوب کی خاص بات یہ ہے کہ وہ قاری کو بیک وقت ہنسانے اور سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں، ان کے طنز میں تہذیبی، سماجی اور نفسیاتی پہلو نمایاں ہوتے ہیں، جبکہ ان کے مزاح میں شائستگی اور زبان کی لطافت نظر آتی ہے۔ یوسفی کے طنز کا ہدف صرف فرد نہیں بلکہ پورا معاشرتی نظام ہوتا ہے، وہ سیاسی، ثقافتی اور تہذیبی زوال پر بھی لطیف انداز میں چوٹ کرتے ہیں۔ ان کے جملے معنوی لحاظ سے تہہ در تہہ ہوتے ہیں، جنہیں بار بار پڑھنے پر نئے مفاہیم دریافت ہوتے ہیں۔ ان کی نثر کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ وہ قدیم اور جدید اردو کے حسین امتزاج سے ایک ایسی زبان تخلیق کرتے ہیں جو کلاسیکی بھی ہے اور جدید بھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بعد کے مزاح نگاروں پر ان کی گہری چھاپ نظر آتی ہے، اور وہ اردو نثر کے ایسے قدآور ستون ہیں جن کے اسلوب کی تقلید کرنا ممکن نہیں۔ عہدِ یوسفی کو اردو طنز و مزاح کے سنہری دور سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، کیونکہ اس میں اردو نثر اپنی لطافت، شگفتگی، شائستگی اور فکری عظمت کے ایک نئے مقام پر پہنچتی ہے، جو یوسفی کی تخلیقی صلاحیتوں اور فکری بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔