علامہ محمد انور شاہ کشمیری (1875–1933) برصغیر پاک و ہند کے ممتاز اسلامی مفکر، محدث، فقیہ اور محقق تھے، جنہوں نے نہ صرف دینی علوم میں گراں قدر خدمات انجام دیں بلکہ اردو زبان کو دینی، علمی اور فکری مکالمے کا وسیلہ بنا کر ایک روشن اور زرخیز علمی روایت کی بنیاد رکھی۔ اگرچہ ان کی زیادہ تر تصانیف عربی زبان میں ہیں، لیکن ان کا علمی فیضان اردو میں بھی نہایت مؤثر انداز میں منتقل ہوا۔ ان کی اردو تقریریں، درسی خطبات، ملفوظات اور بالخصوص ان کے شاگردوں اور متوسلین کی اردو تحریریں آج بھی اردو زبان میں دینی علوم کی گہرائی، تحقیقی درستی اور علمی وقار کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اردو زبان میں ان کی براہ راست اور بالواسطہ خدمات نے اسے نہ صرف علمی زبان کا درجہ دیا بلکہ دینی اور فلسفیانہ مباحث کے بیان کا ایسا ذریعہ بنایا جس نے ہزاروں طلبہ، علما، اور قارئین کی ذہنی تربیت کی۔
علامہ کشمیری کا علمی دائرہ صرف مدرسے کی چہار دیواری تک محدود نہ تھا بلکہ ان کی علمی زندگی ایک ہمہ جہت فکری جدوجہد تھی۔ ان کی مجلس میں بیٹھنا گویا ایک علمی انجمن میں شریک ہونا تھا جہاں دینی مسائل، فقہی استدلال، کلامی نکات اور حدیث و تفسیر کے دقیق مباحث پر بحث ہوتی تھی۔ ان کا اندازِ بیان نہایت مدلل، سادہ اور بلیغ ہوتا، جو اردو دان طلبہ کے لیے ان پیچیدہ مباحث کو قابلِ فہم بنا دیتا۔ ان کے خطابات کو ان کے شاگردوں نے مرتب کر کے اردو زبان میں محفوظ کیا، جو آج بھی درسیاتِ دینیہ میں حوالہ جاتی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کے ممتاز ترین تلامذہ میں حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا یوسف بنوری، مولانا قاری طیب اور ان کے اپنے صاحبزادے مولانا انظر شاہ کشمیری شامل ہیں۔ ان حضرات نے اردو زبان میں جو علمی، فکری اور تصنیفی خدمات انجام دیں، وہ اردو زبان کی علمی تاریخ کا ایک سنہری باب ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا حسین احمد مدنی کی خودنوشت “نقشِ حیات” نہ صرف ایک سوانحی دستاویز ہے بلکہ اردو نثر کی ایک بلیغ، مربوط اور فکری تحریر بھی ہے۔ اس میں دینی جدوجہد، تحریکِ آزادی، علمِ حدیث اور فقہ کے مباحث کو ایسی روانی اور تاثیر سے بیان کیا گیا ہے کہ وہ اردو زبان کی وسعت اور اس کے علمی امکانات کو نمایاں کرتی ہے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی، جو تحریکِ پاکستان کے فعال رہنما بھی تھے، نے اردو میں قرآن پاک کا ترجمہ اور تفسیر کر کے اردو دان طبقے کے لیے قرآنی تعلیمات کو قابلِ فہم بنایا۔ ان کی تحریریں نہ صرف علمی صحت رکھتی ہیں بلکہ زبان و بیان میں بھی سادگی، روانی اور وسعت کا مظہر ہیں۔ ان کے اردو خطبات، سیاسی بیانات اور مذہبی مضامین نے اردو زبان کو فکری اعتبار سے ایک نئے وقار سے ہمکنار کیا۔
مولانا محمد یوسف بنوری نے اپنی مشہور کتاب “معارف السنن” کی شروحات میں اردو زبان کو تحقیقی و تنقیدی اظہار کا ذریعہ بنایا۔ ان کے اردو مقالات، دینی رسائل میں شائع شدہ تحریریں، اور تحقیقی مضامین آج بھی اردو خواں علما کی علمی و فکری تربیت کا ذریعہ ہیں۔ اسی طرح مولانا انظر شاہ کشمیری نے اردو زبان میں نہ صرف سیرت، حدیث اور اسلامی تاریخ پر بلند پایہ کتابیں لکھیں بلکہ اردو نثر میں علمی وقار، فکری شعور اور تہذیبی آہنگ کو نئی جہت عطا کی۔ ان کی زبان نہایت پر اثر، سادہ مگر باوقار اور علمی چاشنی سے بھرپور ہوتی ہے۔
یہ تمام حضرات علامہ انور شاہ کشمیری کے علمی فیضان کے مظاہر ہیں جنہوں نے اردو زبان کو صرف ایک تدریسی ذریعہ ہی نہیں بلکہ علمی مکالمے، دینی تعبیر اور فکری استدلال کی زبان بنایا۔ ان کی تحریریں آج بھی اردو زبان میں اسلامی فکر کی گہرائی، فقہی بصیرت، اور فلسفیانہ ابعاد کا مظہر ہیں۔ ان تلامذہ نے اردو زبان میں ہزاروں صفحات پر مشتمل علمی و دینی مواد تخلیق کیا جس نے مدارسِ دینیہ میں اردو زبان کو تدریسی زبان کے طور پر مستحکم کیا۔
علامہ کشمیری کے دور میں جب تعلیم کا ذریعہ عربی یا فارسی رہا کرتا تھا، اس وقت اردو میں دینی گفتگو کو سنجیدہ علمی تحریر میں تبدیل کرنا ایک چیلنج سے کم نہ تھا۔ تاہم ان کے تلامذہ نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اردو کو صرف مقامی زبان نہیں بلکہ دینیات، فقہ، تفسیر اور فلسفہ جیسے پیچیدہ موضوعات کا قابلِ اعتبار ذریعہ بنایا۔ ان حضرات کی تحریریں صرف مذہبی عقائد کی ترجمانی نہیں کرتیں بلکہ ان میں فکری وسعت، تحقیقی شان، اور استدلالی تقاضوں کی بھرپور جھلک ملتی ہے۔ اردو زبان کے لیے ان کا یہ کام درحقیقت ایک دینی، تہذیبی اور علمی خدمت ہے جس نے اردو کو علمی سطح پر استوار کیا۔
اس کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ان متوسلین اور تلامذہ نے اردو زبان میں جو تعلیمی نصاب مرتب کیا، وہ بھی ان کے اثرات کا مظہر ہے۔ آج بھی مدارسِ دینیہ میں جو اردو نصاب پڑھایا جاتا ہے، اس کی بنیاد انہی علما کی تصانیف اور تحقیقی کاموں پر ہے۔ ان کے رسائل و جرائد، جیسے “البلاغ”، “الاعتصام”، “معارف” اور “بینات”، اردو زبان میں علمی و فکری معیار کے حامل ہیں اور ہزاروں علما و طلبہ ان سے استفادہ کرتے ہیں۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ علامہ محمد انور شاہ کشمیری اور ان کے تلامذہ نے اردو زبان کو جس علمی و فکری وقار سے ہمکنار کیا، وہ اردو زبان کی تاریخ میں ایک منفرد اور سنہری مقام رکھتا ہے۔ ان کے علمی تسلسل نے اردو کو صرف ایک ادبی زبان ہی نہیں بلکہ دینیات، فلسفہ، تاریخ، اور روحانیت کی زبان بھی بنا دیا۔ ان کی خدمات آج بھی اردو زبان کے علمی پھیلاؤ اور فکری استحکام کی بنیاد ہیں، اور ان کے اثرات آئندہ نسلوں تک پہنچتے رہیں گے۔ ان کا علمی ورثہ اردو زبان میں محفوظ ہے، اور یہی اردو زبان کی وہ شان ہے جو اسے برصغیر کے تمام اسلامی علوم کے لیے ایک قابلِ فخر زبان بنا دیتی ہے۔