کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

علامہ اقبال کی خدمات بحیثیت رکن پنجاب اسمبلی

علامہ محمد اقبال (1877–1938) کو عام طور پر ایک عظیم شاعر، فلسفی، مفکرِ اسلام، اور تحریکِ پاکستان کے روحِ رواں کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن ان کی شخصیت محض تخیلاتی و فکری سطح تک محدود نہ تھی۔ اقبال ایک سرگرم سماجی و سیاسی رہنما بھی تھے جنہوں نے عملی سیاست میں شرکت کر کے نہ صرف اپنی فکر کا اظہار کیا بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی حقوق، ثقافتی شناخت، اور سیاسی مستقبل کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات کیے۔ ان کی سیاسی خدمات کا ایک اہم اور نسبتاً کم اجاگر کیا جانے والا پہلو ان کی بحیثیت رکن پنجاب اسمبلی کارکردگی ہے، جہاں انہوں نے برطانوی ہندوستان کے سیاسی اور سماجی تناظر میں مسلم مفادات کے تحفظ کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ مضمون علامہ اقبال کی پنجاب قانون ساز اسمبلی میں کی جانے والی خدمات، ان کے سیاسی نظریات، تقاریر، اور عملی کردار کا ایک جامع تجزیہ پیش کرتا ہے۔

اقبال کو پہلی مرتبہ 1926ء کے عام انتخابات میں پنجاب اسمبلی (اس وقت کی قانون ساز کونسل) کا منتخب رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے لاہور شہر کے مسلم حلقے سے بطور مسلمان نمائندہ انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئے۔ اس وقت پنجاب کی سیاست کا منظرنامہ خاصا پیچیدہ تھا۔ کانگریس، ہندو مہاسبھا، سکھ لیڈر شپ، یونینسٹ پارٹی، اور مسلم سیاست دانوں کے درمیان نظریاتی کشمکش جاری تھی۔ مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی زمینداروں، علما، اور نوابوں کے زیر اثر تھی، جبکہ تعلیمی اور شہری طبقہ نوآبادیاتی نظام کے تحت اپنی جگہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ایسے وقت میں اقبال کا اسمبلی میں آنا، ایک فکری رہنما کے ساتھ ساتھ ایک عملی سیاست دان کی حیثیت سے ان کے کردار کو نمایاں کرتا ہے۔

اقبال نے پنجاب اسمبلی میں قدم رکھتے ہی اس ایوان کو محض ایک انتظامی ادارہ نہ سمجھا بلکہ اسے مسلمانوں کے حقوق، تعلیم، تہذیب، اور مذہب کے تحفظ کا میدان بنایا۔ ان کی تقاریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض رسمی یا نمائشی سیاست کے قائل نہ تھے بلکہ ہر مسئلے کو فکری بنیادوں پر دیکھتے اور اصولی موقف اختیار کرتے۔ انہوں نے مسلمانوں کے تعلیمی مسائل، دینی تعلیم کے تحفظ، اردو زبان کے فروغ، اسلامی وقف جائیدادوں کی بقا، زمینداروں کے حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، اور اقلیتوں کے درمیان برابری جیسے مسائل پر مؤثر آواز اٹھائی۔

مثال کے طور پر جب حکومت نے مذہبی وقف جائیدادوں کو ضبط کرنے کی کوشش کی، تو اقبال نے شدید مخالفت کی اور دلیل دی کہ اسلامی تہذیب میں وقف کا ادارہ محض مالیاتی نہیں بلکہ روحانی، تعلیمی اور معاشرتی نظام کا حصہ ہے، جسے ختم کرنا مسلمانوں کے ملی وجود پر حملہ ہے۔ اسی طرح انہوں نے دینی مدارس کو سبسڈی دینے، اردو زبان کے فروغ اور مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کو سرکاری سطح پر تعاون دینے کے لیے آواز بلند کی۔ ان کا مؤقف ہمیشہ یہ رہا کہ مسلمان ایک الگ تہذیبی و مذہبی اکائی ہیں جن کی ضروریات، اقدار، اور نظریات کو نظر انداز کر کے ہندوستان میں امن اور انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔

علامہ اقبال کی اسمبلی کی تقاریر اگرچہ تعداد میں محدود ہیں، مگر ان میں فکری گہرائی، سیاسی بصیرت، اور تہذیبی شعور نمایاں ہے۔ ان کی تقریر کا انداز مدبرانہ، غیرجذباتی اور دلیل پر مبنی ہوتا تھا۔ وہ مغربی جمہوریت کے نقال نہ تھے بلکہ ایسے سیاسی نظام کے حامی تھے جو اسلامی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ ان کی اسمبلی میں کی گئی ایک مشہور تقریر کا اقتباس ملاحظہ ہو:

ہم مسلمانوں کو اس ملک میں محض ایک اقلیت کے طور پر نہ دیکھا جائے بلکہ ایک ایسی قوم کے طور پر تسلیم کیا جائے جو اپنی تہذیب، اپنے عقائد اور اپنے سماجی نظام کے ساتھ ایک مکمل اور جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔

یہ تقریر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اقبال کا اسمبلی میں موجود ہونا محض ایک رسمی تقرری نہ تھی بلکہ ایک فکری مشن کا حصہ تھا جس کا مقصد مسلمانوں کی سیاسی خودی کو بیدار کرنا تھا۔

اقبال کی سیاست میں صرف مسلم مفادات ہی مرکز نہ تھے بلکہ وہ دیگر اقلیتوں کے حقوق کے بھی حامی تھے۔ پنجاب اسمبلی میں انہوں نے ہندو، سکھ، اور مسیحی اقلیتوں کے لیے مساوی مواقع کی حمایت کی، لیکن ان کا مؤقف یہ تھا کہ برابری کے اصول کو مسلمانوں کی قیمت پر قائم نہ کیا جائے۔ وہ مسلمانوں کو محض ایک مذہبی اقلیت نہیں بلکہ ایک سیاسی قوم سمجھتے تھے، اور اسی فکر کا اظہار وہ اپنے تمام سیاسی اقدامات اور اسمبلی کی تقاریر میں کرتے رہے۔

اقبال نے اپنی اسمبلی کی رکنیت کے دوران تعلیمی پالیسیوں پر خصوصی توجہ دی۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان بچے دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ جدید سائنسی علوم سے بھی آراستہ ہوں تاکہ وہ وقت کی چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں۔ انہوں نے اردو زبان کو مسلمانوں کی تہذیبی شناخت قرار دیا اور اس کے تحفظ کے لیے آواز بلند کی۔ ان کا ماننا تھا کہ اگر اردو ختم ہوئی تو مسلمانوں کی تاریخ، ادب، اور مذہبی ورثہ بھی

اگرچہ اقبال خود اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے، مگر وہ اسمبلی میں غریب کسانوں، زمینداروں اور محنت کش طبقے کے لیے بارہا آواز بلند کرتے رہے۔ انہوں نے جاگیرداری کے ظلم کے خلاف بات کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ زمین کی ملکیت کا منصفانہ نظام قائم کیا جائے تاکہ کسان استحصال سے بچ سکیں۔

علامہ اقبال کی سیاسی زندگی کا یہ پہلو کہ وہ پنجاب اسمبلی کے رکن بھی رہے، اس بات کا مظہر ہے کہ ان کی فکر محض شاعرانہ یا تصوراتی نہ تھی بلکہ انہوں نے عملی میدان میں بھی اپنی بصیرت، فہم، اور جرات کو بروئے کار لا کر مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کی نگہبانی کی۔ ان کی اسمبلی کی موجودگی نے یہ پیغام دیا کہ ایک فکری رہنما صرف بلند خواب نہیں دیکھتا بلکہ زمین پر اتر کر قوم کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ اقبال نے اس محدود مدت میں اسمبلی کے اندر مسلمانوں کی تہذیبی، تعلیمی اور سیاسی خودمختاری کے لیے جو کردار ادا کیا، وہ نہ صرف ان کے فکری نظریے کا عملی عکس ہے بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب بھی ہے۔

گو کہ ان کی اسمبلی کی مدت زیادہ طویل نہ تھی، مگر ان کا اندازِ فکر، ان کی زبان، ان کا اخلاقی جرات مندانہ رویہ، اور ان کے دلائل کی بصیرت آج بھی ہمارے لیے ایک رہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ وہ محض سیاست دان نہ تھے بلکہ ایک مفکرِ ملت، جنہوں نے اسمبلی کے فورم کو بھی ملتِ اسلامیہ کے فکری وقار کا منبر بنا دیا۔ ان کی پارلیمانی زندگی کا مطالعہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سیاست صرف حصولِ اقتدار کا نام نہیں بلکہ ایک فکری ذمہ داری، اخلاقی خدمت اور قومی شعور کا مظہر ہے، جسے اقبال نے بخوبی نبھایا۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں