عطا الحق قاسمی کی نثر میں پنجابی اور انگریزی لفظیات کا مطالعہ ایک اہم اور دلچسپ موضوع ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی تخلیقات میں زبانوں کے امتزاج کا ایسا منفرد طریقہ اختیار کیا جس سے اردو نثر کو نیا رنگ دیا۔ قاسمی کی نثر میں پنجابی اور انگریزی لفظیات کا استعمال نہ صرف ان کی زبان کی وسعت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ اس کے ذریعے وہ اپنے معاشرتی اور ثقافتی پس منظر کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ قاسمی کی نثر میں پنجابی لفظیات کا استعمال ان کے پاکستانی پس منظر اور زبان سے گہرا تعلق ظاہر کرتا ہے، جہاں پنجابی زبان کے محاورے، مقامی گانے اور روایات کو اس انداز میں شامل کیا گیا ہے کہ وہ نثر کو جیتی جاگتی حقیقت کی طرح محسوس ہوتی ہے۔ اسی طرح انگریزی لفظیات کا استعمال قاسمی کے عالمی ادب اور تعلیمی پس منظر کو ظاہر کرتا ہے، جہاں وہ انگریزی زبان کو ایک رابطے کی زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں، تاکہ وہ عالمی تناظر میں اپنی باتوں کو زیادہ مؤثر طریقے سے پیش کر سکیں۔ قاسمی کی نثر میں ان دونوں زبانوں کی لفظیات کا استعمال ایک زبان سے دوسری زبان میں جڑنے کی ایک کامیاب کوشش ہے، جو نہ صرف ان کے اسلوب کی علامت ہے بلکہ اس کے ذریعے وہ اردو نثر میں ایک نئی لچک اور رنگینی بھی پیدا کرتے ہیں۔ اس مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قاسمی نے زبان کی حدود کو عبور کیا اور اپنی نثر میں مختلف زبانوں کو ایک نئے اور منفرد انداز میں ہم آہنگ کیا۔ اس کے نتیجے میں ان کی نثر میں ایک ثقافتی تنوع اور ادبی تخلیق کی ایک نئی جہت ابھرتی ہے، جو اردو ادب میں ایک نئی اور ترقی یافتہ زبان کی صورت میں سامنے آتی ہے۔