عبداللہ حسین کے منتخب ناولوں “اداس نسلیں”، “نادار لوگ”، اور “قید” میں عورت کے مزاحمتی رویے کا مطالعہ نسائی رد تشکیل کے تناظر میں ایک اہم اور گہرا تحقیقی موضوع ہے۔ ان ناولوں میں عورت کے کرداروں کے ذریعے عبداللہ حسین نے سماجی، ثقافتی اور سیاسی جبر کے خلاف عورت کے مزاحمتی رویوں کو واضح طور پر پیش کیا ہے۔ “اداس نسلیں” میں جہاں عہد کی سماجی اور سیاسی حقیقتوں کی عکاسی کی گئی ہے، وہاں عورت کے کرداروں کا مزاحمتی رد عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ صرف مردوں کی مرضی اور روایات کے مطابق نہیں چل سکتیں، بلکہ وہ اپنی شناخت اور آزادی کے لیے کھل کر مزاحمت کرتی ہیں۔ “نادار لوگ” میں بھی عورت کی حالت اور اس کا مزاحمتی رویہ ایک اہم پہلو بنتا ہے، جہاں وہ اپنے سماجی مقام اور مالی حالات کے باوجود اپنے حقوق کے لیے لڑتی ہے۔ اس ناول میں عورت کی مزاحمت صرف جسمانی یا جذباتی سطح پر نہیں بلکہ معاشرتی روایات اور عادات کے خلاف بھی ہے، جہاں وہ سماج کی نظر میں کمتر سمجھی جانے والی اپنی حیثیت کو مسترد کرتی ہے اور ایک نئے طریقے سے اپنی زندگی کو دیکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ “قید” میں بھی عبداللہ حسین نے عورت کے مزاحمتی کردار کو مزید اجاگر کیا ہے، جہاں عورت نہ صرف اپنے ذاتی مسائل کا سامنا کرتی ہے بلکہ وہ سماج کی قید سے آزاد ہونے کی جدوجہد میں بھی سرگرم دکھائی دیتی ہے۔ ان ناولوں میں عورت کے مزاحمتی رویے کو نسائی رد تشکیل کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جہاں وہ صرف روایات اور سماجی جبر کے خلاف آواز نہیں اٹھاتی، بلکہ وہ اپنی شخصیت کو نئے سرے سے تشکیل دینے کی کوشش کرتی ہے، جو اسے صرف عورت کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک آزاد اور خود مختار فرد کے طور پر سامنے لاتی ہے۔ عبداللہ حسین کی یہ تخلیقات نسائی مزاحمت کو نہ صرف ایک سماجی حقیقت کے طور پر بلکہ ایک ذہنی اور نفسیاتی جدوجہد کے طور پر بھی پیش کرتی ہیں، جس میں عورت خود کو دوبارہ سے تخلیق کرتی ہے اور اپنے اندر کی طاقت کو پہچانتی ہے۔