کھوئے ہوئے علم کی بازیافت

صوفی غلام مصطفی تبسم ـــــــ حیات اور فن

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اردو، فارسی اور پنجابی ادب کا ایک درخشندہ نام ہے۔ وہ نہ صرف ایک قادرالکلام شاعر تھے بلکہ ایک بلند پایہ مترجم، نثر نگار، معلم، اور تہذیبی شعور رکھنے والے فنکار بھی تھے۔ ان کی شخصیت کئی جہتوں کی حامل تھی: ایک طرف وہ علمی اور فکری سطح پر ادبی روایت کے امین تھے تو دوسری طرف وہ اپنے عہد کے جمالیاتی ذوق، تہذیبی شعور اور جدید تخلیقی وجدان کا گہرا ادراک بھی رکھتے تھے۔ ان کی شاعری، بالخصوص بچوں کے لیے لکھا گیا کلام، ان کے فن کی وسعت اور ان کی نرم خو شخصیت کا عکس ہے۔

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی پیدائش 1899 میں امرتسر میں ہوئی۔ ان کا تعلق ایک علمی و ادبی خانوادے سے تھا جس کی تربیت میں انہیں ابتدائی عمر سے زبان و ادب کا ذوق حاصل ہوا۔ انہوں نے جامعہ پنجاب سے فارسی اور اردو میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ تدریس سے وابستہ ہو گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور جیسے معزز تعلیمی ادارے سے وابستہ ہو کر کئی دہائیوں تک اردو اور فارسی ادب کی تدریس میں مصروف رہے۔ ان کے شاگردوں میں بعد کے کئی نامور شاعر، ادیب اور محقق شامل ہیں۔

ان کے فن کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی زبان کی روانی، سادگی، اور موسیقیت ہے۔ تبسم نے شاعری کو صرف فکری اظہار یا فلسفیانہ تفہیم کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ انہوں نے فن کو جمالیاتی تجربہ اور زندگی کی لطافتوں کا اظہاریہ بنایا۔ ان کی غزل ہو یا نظم، ہر جگہ ایک دلنشین نرمی، نفاست اور حسنِ اظہار ملتا ہے۔ انہوں نے کلاسیکی شاعری کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اسے جدید طرزِ بیان سے ہم آہنگ کیا۔ ان کے اشعار میں خیال کی ندرت، جذبے کی سچائی اور زبان کی نفاست دل کو چھو لیتی ہے۔

ان کی شاعری کی ایک اہم جہت ان کا بچوں کے لیے لکھا گیا ادب ہے۔ ان کی تخلیق کردہ نظمیں جیسے “ٹوٹ بٹوٹ کی کہانی”، “لالا جی کی نظم”، اور “میرا پتنگا” بچوں کے ادبی ذوق کو پروان چڑھانے میں نہایت مؤثر ثابت ہوئیں۔ صوفی تبسم نے بچوں کے لیے ادب لکھتے ہوئے زبان کو نہایت آسان، خوش آہنگ اور پرلطف رکھا۔ ان کی نظموں میں کھیل، کہانی، ہنسی، نصیحت، اور خوابوں کی دنیا ایک ساتھ موجود ہوتی ہے۔ اس میدان میں وہ ایک ایسا نام بنے جو آج بھی اردو بچوں کے ادب میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔

صوفی تبسم نے شاعری کے ساتھ ساتھ ترجمے کا بھی وقیع کام کیا۔ انہوں نے فارسی شاعری کو اردو میں منتقل کر کے زبانوں اور تہذیبوں کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔ خاص طور پر حافظ شیرازی کے اشعار کا اردو ترجمہ ان کی علمی بصیرت، فنی مہارت اور لسانی فہم کا شاہکار ہے۔ انہوں نے اس ترجمے میں نہ صرف زبان کا حسن برقرار رکھا بلکہ حافظ کے اسلوب اور معنی کی گہرائی کو بھی خوبصورتی سے منتقل کیا۔ ان کا ترجمہ صرف لغوی معنی تک محدود نہیں بلکہ ایک تخلیقی فن پارہ بن گیا ہے۔

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے بھی اردو ادب کی ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ پاکستان کے ابتدائی نشریاتی دور میں بچوں کے پروگراموں، ادبی مباحثوں اور مشاعروں کے لیے ایک مقبول اور معزز شخصیت بن گئے۔ ان کی گفتگو میں وقار، شائستگی اور محبت کا عنصر نمایاں ہوتا تھا۔ وہ نئی نسل کو ادب سے روشناس کرانے میں ایک عملی مثال تھے۔

تبسم کی شخصیت میں صوفیانہ رنگ نمایاں تھا۔ وہ اپنے اندر ایک ایسی روحانی لطافت رکھتے تھے جو ان کی شاعری میں بھی جھلکتی ہے۔ وہ انسان دوستی، رواداری، اور محبت کے مبلغ تھے۔ ان کی شاعری میں تصوف کی وہ پرچھائیاں موجود ہیں جو کسی واعظ یا مبلغ کے انداز میں نہیں بلکہ ایک جمالیاتی طرزِ احساس میں ڈھل کر سامنے آتی ہیں۔ ان کے ہاں تصوف صرف عقیدے کا مظہر نہیں بلکہ ایک طرزِ احساس ہے جو ہر شے کو محبت، حسن اور وقار کی نظر سے دیکھتا ہے۔

ان کے علمی و ادبی کارناموں کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انہیں “ستارۂ امتیاز” اور “تمغۂ حسنِ کارکردگی” جیسے اعزازات سے نوازا۔ یہ اعزازات ان کی خدمات کا محض رسمی اعتراف نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کا نام اردو ادب میں ایک دیرپا اور مستند مقام رکھتا ہے۔

وہ 1978 میں وفات پا گئے، لیکن ان کا کلام، ان کی خدمات، اور ان کا نام آج بھی اردو ادب کے سنہرے اوراق میں زندہ ہے۔ ان کی شخصیت نہ صرف ادیبوں اور شاعروں کے لیے ایک نمونہ ہے بلکہ معلم، مترجم، اور بچوں کے لیے ادب لکھنے والوں کے لیے بھی مشعل راہ ہے۔ ان کی شاعری، ان کی نثر، اور ان کی تربیت یافتہ نسل آج بھی ان کے احسان کا اعتراف کرتی ہے۔ صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کی ادبی شخصیت ایک ایسا مینار ہے جس کی روشنی اردو ادب کے افق پر ہمیشہ قائم رہے گی۔

ڈاؤن لوڈ یا کسی اور معلومات کے لیے ہم سے رابطہ کریں


نئے مواد کے لیے ہماری نیوز لیٹر رکنیت حاصل کریں