ڈاکٹر عبد الودود قریشی کے کالموں کا ادبی و لسانی تجزیہ صحافتی نثر کے ادبی زاویے کو سمجھنے کے لیے ایک اہم تحقیقاتی موضوع ہے، کیونکہ قریشی نے اپنے کالموں میں صحافت کو محض خبریت یا معلومات کی ترسیل کا ذریعہ نہیں بنایا، بلکہ اس میں ایک ادبی تخلیق کی روح بھی شامل کی۔ ان کے کالموں میں صحافت کے اصولوں کے ساتھ ساتھ ادب کی باریکیوں کا استعمال ان کے کلام کو خاص نوعیت کا بناتا ہے۔ ادبی زاویے سے دیکھیں تو ڈاکٹر قریشی نے صحافتی نثر میں لسانی مہارت، استعارہ، تشبیہات، اور علامات کا استعمال کیا ہے تاکہ اپنے پیغام کو زیادہ مؤثر اور دلکش انداز میں پیش کر سکیں۔ ان کے کالموں میں مخصوص لسانی ساختیں اور جملوں کی بناوٹ ایک خاص قسم کی جمالیاتی اہمیت رکھتی ہیں، جو قاری کو نہ صرف معلومات فراہم کرتی ہیں بلکہ ان میں گہری فکری تحریک بھی پیدا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ، ان کے کالموں میں زبان کی سادگی اور روانی کے ساتھ ساتھ ثقافتی اور سماجی مسائل پر گہری نظر رکھی گئی ہے، جس سے ان کی تحریر میں ایک طرح کی فکری گہرائی اور ادبی لطافت آتی ہے۔ لسانی تجزیہ کے اعتبار سے، ڈاکٹر قریشی نے اپنے کالموں میں اردو کے قدیم و جدید لہجوں کا خوبصورتی سے امتزاج کیا ہے، جس میں روزمرہ کی زبان اور ادبی زبان دونوں کا استعمال ہوتا ہے، جو صحافتی نثر کے لیے ایک نئے زاویے کو پیش کرتا ہے۔ ان کے کالموں میں نہ صرف صحافتی مواد کی ترسیل ہوتی ہے بلکہ ایک ادبی متن کی خصوصیات بھی شامل ہوتی ہیں، جو قاری کو ایک نیا ذائقہ فراہم کرتی ہیں۔ اس طرح ڈاکٹر عبد الودود قریشی نے صحافتی نثر کو ایک نئی تخلیقی جہت دی ہے، جس میں ادب اور صحافت کے درمیان ایک خوبصورت توازن پایا جاتا ہے۔