شہناز شورو کے افسانوں میں نسائی مزاحمت کے عناصر ایک منفرد اور اہم پہلو کی حیثیت رکھتے ہیں، جو ان کی تخلیقات کو نہ صرف خواتین کے مسائل کی عکاسی کے طور پر دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ ان کی نفسیات اور سماجی حقیقتوں کی گہرائی میں جا کر ان کے مزاحمتی رویوں کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ ان افسانوں میں خواتین کو محض کمزور یا مظلوم کے طور پر پیش نہیں کیا گیا، بلکہ انہیں اپنی شناخت، آزادی اور حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ شہناز شورو نے اپنے افسانوں میں عورت کی داخلی کشمکش، اس کی ذاتی خواہشات اور سماجی روایات سے ٹکراتی ہوئی حقیقتوں کو نمایاں کیا ہے، جہاں عورت نہ صرف اپنے ماحول سے لڑ رہی ہوتی ہے بلکہ وہ اپنے ذاتی طور پر بنائے گئے تضادات اور شناخت کی جدوجہد میں بھی مصروف ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں نسائی مزاحمت کا عنصر اس وقت نمایاں ہوتا ہے جب خواتین اپنے روایتی کرداروں کو چیلنج کرتی ہیں اور ان کے برعکس ایک نئی صورت حال یا دنیا کا تصور پیش کرتی ہیں، جس میں وہ اپنے فیصلے خود کرنے کی طاقت اور آزادی حاصل کرتی ہیں۔ ان کی تخلیقات میں مردوں کی طرف سے کئے جانے والے ظلم و جبر، سماجی روایات اور اخلاقی قدروں کی گرفت سے آزادی کی تمنا کو ایک مرکزی موضوع بنایا گیا ہے۔ شہناز شورو کی افسانوی تحریروں میں یہ نسائی مزاحمت صرف سوشل ڈسکورس کے ساتھ جڑی نہیں بلکہ یہ ایک نفسیاتی سطح پر بھی خواتین کے اندر کی طاقت اور خود مختاری کی علامت بن کر ابھرتی ہے، جس میں وہ اپنے احساسات، تجربات اور خوابوں کے مطابق اپنی تقدیر کو خود سے متعین کرتی ہیں۔ ان افسانوں میں اس مزاحمت کی شروعات ان خواتین کے کرداروں سے ہوتی ہے جو روایتی عادات و رسوم کی پابندیوں سے آزاد ہو کر اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہیں، جس سے ان کا کردار نہ صرف ایک سماجی احتجاج کا حصہ بنتا ہے بلکہ ایک شعور کی بیداری کا بھی غماز بن جاتا ہے۔ شہناز شورو کے افسانوں میں نسائی مزاحمت کا یہ عمل ایک طرح سے سماج کے چہرے پر پڑی ہوئی قدیم دھند کو صاف کرنے اور نئی روشنی کی طرف بڑھنے کی کوشش ہے۔