شاعری اور عروض کا مطالعہ آہنگ و صوت کے تناظر میں گلگت بلتستان کی اردو شاعری میں ایک اہم پہلو ہے، کیونکہ یہاں کی اردو شاعری میں محض الفاظ کی معنویت نہیں بلکہ ان کی صوتی ترتیب اور آہنگ بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔ گلگت بلتستان کی اردو شاعری میں مقامی ثقافت، ماحول اور زبانوں کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں، جس کا اظہار عروضی ساخت میں مختلف طریقوں سے ہوتا ہے۔ یہاں کی شاعری میں صوتی ہم آہنگی، ردیف اور قافیے کے استعمال میں مقامی ذائقے کا اثر صاف نظر آتا ہے، اور شاعر اپنے تخلیقی اظہار کو آہنگ کے ذریعے زیادہ مؤثر بناتا ہے۔ گلگت بلتستان کی اردو شاعری میں جہاں کلاسیکی عروض کی پیروی کی گئی ہے، وہیں جدید شاعروں نے نیا تجربہ کرنے کی کوشش کی ہے جس میں نثری شاعری اور آزاد نظموں کا بھی دخیل ہے۔ ان شاعروں نے اپنی شاعری میں مقامی بول چال کی زبانوں کا استعمال کیا ہے، جیسے کہ شینا، بلتی، اور دیگر مقامی لہجوں کی تاثیر، جو اردو کے عروض میں نئی آواز اور لحن پیدا کرتی ہے۔ ان کی شاعری میں آہنگ و صوت کے ذریعے ایک خاص نوعیت کی لذت اور تاثیر پیدا ہوتی ہے جو مقامی ثقافت کے اظہار کا حصہ بنتی ہے۔ اس تناظر میں گلگت بلتستان کی اردو شاعری کی صوتی جمالیات اور عروضی تجربات کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ کیسے یہ شاعری اپنی مقامی شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے اردو کی کلاسیکی اور جدید عروضی روایات سے ہم آہنگ ہوتی ہے، اور شاعری کے ذریعے ایک نیا صوتی منظرنامہ پیش کرتی ہے جو نہ صرف زبان کے لحاظ سے بلکہ ثقافتی لحاظ سے بھی اہمیت رکھتا ہے۔