سجاد ظہیر کا ناول “لندن کی ایک رات” ایک اہم ادبی کام ہے جو نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی تنقید کے تناظر میں گہرے تجزیے کا متقاضی ہے۔ ناول میں لندن کی ایک رات کے واقعات اور کرداروں کے ذریعے سجاد ظہیر نے اس دور کی سماجی، سیاسی اور نفسیاتی حقیقتوں کو اجاگر کیا ہے جو برطانوی استعمار کے اثرات میں زندگی گزارنے والے لوگوں پر مرتب ہوئی تھیں۔ نوآبادیاتی تنقید کے تناظر میں، “لندن کی ایک رات” میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ایک نوآبادیاتی طاقت نے نہ صرف سیاسی اور معاشی میدانوں میں اپنے اثرات قائم کیے، بلکہ اس کے اثرات ثقافت، شناخت اور فرد کی نفسیات پر بھی گہرے ہوئے۔ ناول میں لندن میں آباد ہندوستانی باشندوں کی زندگیوں کا جائزہ لیا گیا ہے، جو ایک طرح سے نوآبادیاتی ورثے کا شکار ہیں اور اپنے وجود کے مختلف پہلوؤں میں اس کی موجودگی محسوس کرتے ہیں۔مابعد نوآبادیاتی تجزیہ کے لحاظ سے، سجاد ظہیر نے اس ناول میں نوآبادیات کے بعد کے دور کے مسائل کو اجاگر کیا ہے، خاص طور پر ثقافتی کشمکش، شناخت کے بحران اور نوآبادیاتی تسلط کے اثرات کے حوالے سے۔ یہ ناول مابعد نوآبادیاتی کرداروں کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے، جو اپنے نوآبادیاتی ماضی کو جھیل رہے ہیں اور اپنی ثقافتی، سماجی اور ذاتی شناخت کی تلاش میں ہیں۔ ان کرداروں کی نفسیات میں ایک نوع کی الجھن اور عدم تحفظ موجود ہے، جو ان کے نوآبادیاتی ورثے اور موجودہ حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ سجاد ظہیر نے اس ناول میں لندن کی جغرافیائی اور ثقافتی فضا کو ایک سموکنگ میٹافور کے طور پر استعمال کیا ہے، جو کہ استعمار اور اس کے بعد کی حقیقتوں کے درمیان تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ “لندن کی ایک رات” نوآبادیاتی تسلط کے اثرات، ثقافتی تصادم اور شناخت کے بحران کو مابعد نوآبادیاتی تنقید کے ذریعے سمجھنے کی ایک اہم کوشش ہے، جو ایک نئے ادب کی تخلیق کی طرف اشارہ کرتا ہے جس میں نوآبادیاتی اثرات سے نکل کر ماضی کے شکنجے سے آزادی کی جدو جہد کا بیان ملتا ہے۔