رسالہ “معارف“ اردو زبان و ادب کی تاریخ میں ایک عظیم الشان علمی، ادبی اور فکری روایت کا امین رہا ہے۔ اس کی بنیاد 1916ء میں اعظم گڑھ سے مولانا شبلی نعمانی کی وصیت کے مطابق دارالمصنّفین کے زیرِ اہتمام رکھی گئی۔ اس رسالے نے نہ صرف برصغیر کی ادبی فضا کو فکری بالیدگی عطا کی بلکہ اسلامی علوم، سیرت نگاری، تاریخ، سوانح، تنقید، اور تہذیب و تمدن کے موضوعات پر اعلیٰ معیار کی تحریریں شائع کر کے علمی روایت کو مضبوط کیا۔ “معارف” اردو میں سنجیدہ اور تحقیقی ادب کے فروغ کا ایک بے نظیر حوالہ ہے جس نے برسوں اہلِ علم، ادیبوں، محققین، اور طالب علموں کو فکری غذا فراہم کی۔
یہ رسالہ ابتدا ہی سے اپنی سنجیدہ مزاجی، تحقیقی و تنقیدی معیار، اور زبان و بیان کی متانت کی وجہ سے پہچانا گیا۔ اس نے نہ کسی سنسنی خیزی کا سہارا لیا اور نہ ہی ادبی پاپولزم کے بہاؤ میں بہا، بلکہ اس کی پیشکش ہمیشہ علمی وقار، استدلال، اور روایت پرستی کے اصولوں پر قائم رہی۔ معارف کے مضامین اکثر طویل اور گہرائی لیے ہوتے تھے جن میں موضوعات پر مختلف پہلوؤں سے روشنی ڈالی جاتی۔ یہی طویل تحقیق، حوالہ جات، اور علمی انداز وہ امتیازی اوصاف تھے جنہوں نے معارف کو دیگر عام ادبی رسائل سے ممتاز کر دیا۔
ادبی اعتبار سے اگر معارف کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس نے اردو ادب میں ایسے رجحانات کو فروغ دیا جو عقل و خرد، دلیل، مطالعہ اور تاریخی شعور سے جڑے ہوئے تھے۔ اس رسالے نے کبھی رومانویت، سطحیت، یا محض جذباتیت کو جگہ نہیں دی بلکہ ان مضامین کو اہمیت دی جو ادب کی تہذیبی بنیادوں کو استوار کرتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اردو تنقید، سوانح نگاری، سیرت نگاری اور تہذیبی مکالمے میں معارف کا کردار ناقابلِ فراموش ہے۔
شبلی نعمانی کے بعد مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی، مولانا عبدالسلام ندوی، اور ڈاکٹر سید محمد میاں جیسے فکری و علمی اکابرین نے اس کے ادارت کے فرائض انجام دیے۔ ان تمام حضرات نے معارف کے مزاج اور معیار کو برقرار رکھا۔ ان کی ادارت میں معارف نے اردو میں اسلامی تاریخ، فلسفہ، تہذیب، ادب اور سیرت پر جو مواد شائع کیا، وہ آج بھی مستند مآخذ کی حیثیت رکھتا ہے۔
“معارف” کے ذریعہ کئی بڑے مصنفین، ناقدین، اور محققین سامنے آئے جنہوں نے اردو تنقید کو تحقیقی سمت دی۔ ان میں مولانا محمد میاں، ڈاکٹر سید عبد اللہ، ڈاکٹر زور، محمد حسن عسکری، مالک رام، پروفیسر نذیر احمد، ڈاکٹر احتشام حسین، اور پروفیسر مجتبیٰ حسین جیسے قد آور نام شامل ہیں۔ ان حضرات کے مضامین نے اردو ادب کے کلاسیکی اور جدید رجحانات کو سمجھنے میں قاری کی رہنمائی کی اور ادبی شعور میں اضافہ کیا۔
معارف کی سب سے بڑی خدمت اردو میں علمی انداز کی تحریروں کو رائج کرنا ہے۔ اردو ادب میں جب تنقید کا مزاج شاعرانہ یا محض تاثراتی ہوا کرتا تھا، تب معارف نے عقلی، علمی اور تاریخی انداز کی تحریروں کو فروغ دیا۔ مولانا سید سلیمان ندوی کے سیرت النبیﷺ پر شائع ہونے والے مضامین اسی رسالے کے صفحات پر منظرِ عام پر آتے رہے۔ اسی طرح “معارف نمبر” اور مختلف علمی شخصیات پر شائع ہونے والے خصوصی شمارے اردو میں تحقیقی ادب کے ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ادبی تنقید کے حوالے سے “معارف” کا نقطۂ نظر کسی خاص مکتبِ فکر کا ترجمان نہیں بلکہ یہ اصولی، متوازن اور دلیل پر مبنی ہوتا ہے۔ اس رسالے نے اردو ادب میں مذہبی رنگ، تہذیبی شعور، اور اخلاقی قدروں کی نمائندگی کی اور فکری بگاڑ یا ادبی انارکی سے ہمیشہ اجتناب کیا۔ اس کا خاصہ یہ ہے کہ اس نے مغربی ادب اور تنقید کو اندھا دھند اختیار کرنے کے بجائے اسلامی فکر اور مشرقی روایت کی روشنی میں ادب کا جائزہ لیا۔
اردو سوانح نگاری میں بھی “معارف” کا حصہ نہایت اہم ہے۔ اس نے اکابرین اسلام، علماء، مصنفین، شاعروں اور محققین کی سوانح حیات کو علمی انداز میں مرتب کر کے شائع کیا، جس نے اردو سوانح نگاری کو استناد، جامعیت اور فکری بصیرت سے روشناس کرایا۔ اسی طرح اردو میں ترجمے کے میدان میں بھی معارف نے بڑی خدمات انجام دیں۔ اسلامی، تاریخی اور فلسفیانہ موضوعات پر متعدد علمی کتب اور مضامین کے اردو تراجم نے اردو کو علمی زبان بنانے میں معارف کا کردار نمایاں کر دیا۔
اس رسالے کی ایک اور نمایاں خوبی اس کی لائبریری اور حوالہ جاتی اہمیت ہے۔ معارف کے پرانے شمارے آج بھی جامعات کی لائبریریوں، تحقیقی اداروں، اور اردو ادب کے طالب علموں کے لیے بیش قیمت اثاثہ ہیں۔ اس رسالے کے مشمولات اکثر تحقیقی مقالات، پی ایچ ڈی مقالوں، اور ادبی کتب میں بطور حوالہ استعمال کیے جاتے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ معارف نے اردو ادب کو نہ صرف وسعت دی بلکہ معیار اور استناد بھی بخشا۔
اگر ہم “معارف” کے طرزِ تحریر اور زبان و اسلوب کی بات کریں تو یہ ہمیشہ شائستہ، علمی اور غیرجذباتی رہا ہے۔ اس میں ادب برائے ادب کی جگہ ادب برائے علم اور ادب برائے تہذیب کے نظریے کو تقویت دی گئی۔ یہ اسلوب قاری کو سنجیدہ مطالعے پر آمادہ کرتا ہے اور اردو میں فکری مباحث کی روایت کو زندہ رکھتا ہے۔
موجودہ دور میں جب اردو رسائل کا معیار گرا ہے، اور سطحیت اور تجارتی رجحانات نے جگہ لے لی ہے، معارف اب بھی اپنے علمی و فکری وقار کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ قارئین کی تعداد میں کمی آئی ہے، لیکن اس کے باوجود یہ رسالہ آج بھی محققین، ادبیوں، اور سنجیدہ قارئین کے لیے قیمتی ذریعہ علم ہے۔
خلاصہ یہ کہ “معارف” اردو ادب کا وہ چراغ ہے جس کی روشنی نے اردو نثر کے علمی اور تحقیقی امکانات کو نہ صرف ظاہر کیا بلکہ ایک فکری سمت بھی عطا کی۔ اس رسالے نے اردو میں علمی روایت کو قائم رکھا، تحقیق و تنقید کے اعلیٰ نمونے فراہم کیے، اور زبان و ادب کو تہذیبی وقار عطا کیا۔ “معارف” اردو ادب کی فکری تاریخ کا ایک ایسا باب ہے جو نہ صرف ماضی کی عظمتوں کی یاد دلاتا ہے بلکہ مستقبل کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ اس کی خدمات کو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ عزت و وقار کے ساتھ یاد رکھا جائے گا۔